اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کتے

1402

نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کتنی اور مہنگی ہوگی؟ عوام کے صبر کو کب تک آزمائیں گے۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 19 مارچ 2024ء)
صرف میاں نواز شریف نہیں ان کا پورا خاندان دنیا اور اسٹیبلشمنٹ کا کتا ہے مگر مذکورہ بالا بیان میں میاں نواز شریف کتے کے بجائے شیر کی طرح دھاڑ رہے ہیں اس بیان سے ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اقتدار میں ہیں اور میاں نواز شریف قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے عمران خان کو یاد دلارہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے اشاروں پر ناچ کر ملک و قوم کے ساتھ ظلم کررہے ہیں۔ لیکن حقیقت احوال سب کے سامنے ہے۔ عمران خان جیل میں ہیں اور ملک پر نواز لیگ کی حکومت ہے اور میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں۔ چناں چہ میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے سے صاف انکار کردیں اور کہیں کہ اگر آئی ایم ایف نے ہم سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کے لیے کہا تو ہم عوام پر ظلم کرنے کے بجائے اقتدار کو لات مار دیں گے، لیکن میاں نواز شریف نے ایسا کچھ کہنے کے بجائے صرف ایک بیان داغنے پر اکتفا کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان سے اس کے سوا اور کسی چیز کی توقع بھی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کتا اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کے ’’انقلابی بیان‘‘ کے حوالے سے ہمیں یونیورسٹی کے زمانے میں لکھی ہوئی اپنی ایک نظم کتے بنے رہے یاد آگئی۔ اس نظم کا مرکزی کردار ایک کتا یعنی نواز شریف ہے۔ ذرا دیکھیے تو نظم میں کتا انقلابی بن کر کیسی تقریر کررہا ہے اور اسے ایک بلّی کیا جواب دے رہی ہے۔ نظم یہ ہے۔
اک دن کسی بلّی سے یہ کہنے لگا کتّا
میں ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا بکرا
دس سینگ تھے، نو پائوں تھے، چھے کان تھے میرے
رہتے تھے مری تاک میں چھبیس لٹیرے
بکروں کی ریاست میں بڑا رعب تھا میرا
ہوتی تھی مرے حکم سے رات اور سویرا
شیروں سے ملاقات رہا کرتی تھی اکثر
دھو دھو کے مرے پائوں پیا کرتے تھے بندر
میں نے کئی بگڑے ہوئے ہاتھی کیے سیدھے
کہتے تھے مری شان میں لنگور قصیدے
آتی تھیں مرے واسطے جنت سے غذائیں
چلتی تھیں مرے واسطے رنگین ہوائیں
تعمیر ہوا کرتی تھی پھولوں سے سواری
خوشبو سے سلا کرتی تھی پوشاک ہماری
بلّی نے سنی بات جو کتے کی، تو بولی
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ گولی
باتوں سے مجھے آپ کی اندازہ ہوا ہے
جو آپ کا مالک ہے وہ گپ باز بڑا ہے
انسانوں میں گپ بازی کی عادت ہے بہت عام
لیکن میاں حیوانوں کو گپ بازی سے کیا کام
جو بات حقیقت میں ہو گزری، وہی کہیے
بہتر ہے یہی بات کہ کتے بنے رہیے
کیا ہی اچھا ہو کہ میاں صاحب کا کوئی چاہنے والا میاں صاحب کا زیر بحث بیان اور ہماری یہ نظم میاں صاحب کو پڑھوا دے۔
شریف خاندان کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ شریف خاندان ایک کاروباری خاندان تھا کہ ایک دن جنرل جیلانی نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے والد میاں شریف سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ اپنا کوئی بیٹا سیاسی تربیت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو عطا کردیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میاں شریف نے کہا کہ میرا سب سے ناکارہ بیٹا نواز شریف ہے اسے دلیپ کمار کی فلمیں دیکھنے، محمد رفیع کے گانے سننے اور کرکٹ کھیلنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ چنانچہ آج سے وہ آپ کا ہوا۔ میاں شریف کو معلوم تھا کہ سیاست مال بنانے کا
ذریعہ ہے۔ نواز شریف چل نکلا تو سیاست سے بہت مال بنائے گا۔ خود میاں شریف بھی ایک مال پرست انسان تھے۔ ملک کے ممتاز صحافی ضیا شاہد میاں نواز شریف کے دوست تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف میرا دوست کے عنوان سے ایک پوری کتاب لکھ ماری ہے۔ اس کتاب میں ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ ایک دن ان کی ملاقات میاں شریف سے ہوئی تو انہوں نے ضیا شاہد کو بناتا کہ میں نے نواز شریف کے سیاسی کیریئر پر تین ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ اب نواز شریف سے آپ کی توقع کیا ہے۔ میاں شریف نے بلاتامل کہا کہ اب نواز شریف کا فرض ہے کہ وہ مجھے کم از کم 9 ارب روپے لوٹائے۔ میاں نواز شریف نے اس سلسلے میں اپنے والد کو مایوس نہیں کیا۔ وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے بلڈاگ بن چکے تھے۔ انہوں نے سیاست میں تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ پہلے وہ پنجاب کی کابینہ کے رکن بنے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر نہ ہوتی تو وہ پنجاب کے وزیر کیا پنجاب اسمبلی کے رکن بھی نہیں بن سکتے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ان کے کنٹرول میں آگیا۔ یہی وہ وقت تھا جب جنرل ضیا الحق کی طیارے میں ہلاکت کے بعد ملک میں بے نظیر بھٹو اور کی دھماکا خیز واپسی ہوئی۔ لاہور میں بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا اور اسٹیبلشمنٹ کو معلوم ہوگیا کہ اب بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنا آسان نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس نے میاں نواز شریف کو ملک گیر سطح کا سیاسی رہنما بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس دور میں میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ اینٹی پیپلز پارٹی سیاست کی۔ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے تحت ملک گیر انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے لیے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ اینٹی پیپلز پارٹی سیاست نے میاں نواز شریف کو جلد ہی ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ میاں نواز شریف ایک زمانے میں کس حد تک اسٹیبلشمنٹ کے پالتو تھے اس کا اندازہ ضیا شاہد کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ایک دن جنرل جیلانی نے میاں نواز شریف کو ایک پارٹی میں مدعو کیا۔ میاں صاحب پارٹی میں پہنچے تو جنرل جیلانی کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ایک بیرے کے سر سے ٹوپی اُتار کر اسے بھری محفل میں میاں نواز شریف کے سر پر رکھ دیا۔ میاں صاحب کی عزت نفس ہوتی تو وہ ٹوپی کو اتار پھینکتے اور جنرل جیلانی سے قطع تعلق کرلیتے مگر انہوں نے یہ دونوں کام نہیں کیے۔ وہ بیرے کی ٹوپی اوڑھے رہے اور جنرل جیلانی اس صورت حال سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
ایسا نہیں ہے کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت نہیں کی۔ انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کو استعفا دینے پر مجبور کیا۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو برطرف کیا۔ جنرل پرویز پہلے سے تیاری کیے ہوئے تھے۔ چناں چہ ان کے ایک اشارے پر فوج حرکت میں آگئی۔ میاں صاحب گرفتار ہوگئے اور ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ اس صورت حال میں میاں نواز شریف کو استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کی مزاحمت کرنی چاہیے تھی مگر ایسا کرنے کے بجائے انہوں نے جنرل پرویز کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرلیا اور دس سال کے لیے ملک سے فرار ہوگئے۔
پوری قوم کو میاں نواز شریف کی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ مہم اچھی طرح یاد ہے۔ مگر پھر ایک وقت وہ آیا کہ وہ ووٹ اور اس کی عزت کو اپنے حال پر چھوڑ کر بیماری کی آڑ میں ملک سے فرار ہوگئے۔ یہ فرار جنرل باجوہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کئی سال کے بعد جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آئے تو نواز لیگ کے رہنمائوں کو میاں صاحب کا شایان شان استقبال کرنا تھا، مگر میاں شہباز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے لوگ بھی اسٹیبلشمنٹ کے کتے تھے چنانچہ کوئی شخص بھی میاں صاحب کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے نہ پہنچا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی تھی اور میاں شہباز شریف ڈیڑھ سال کے لیے ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔
کبھی میاں نواز شریف کا نعرہ ووٹ کو عزت دو تھا مگر 2024ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف اور ان کے پورے خاندان نے ووٹ کو عزت دو کے بجائے بُوٹ کو عزت دو کا نعرہ لگادیا۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ نے پورے انتخابی عمل پر ڈاکا ڈال کر نواز لیگ اور ایم کیو ایم کو قوم پر مسلط کردیا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ انتخابی عمل کو اغوا نہ کرتی تو میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ کا اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے انتخابی ڈاکے کا حاصل ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی سیاست میں کئی سیاست دانوں کو لانچ کیا۔ بھٹو صاحب ان میں سے ایک تھے۔ وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے مگر ایک وقت آیا کہ بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ انہیں پی ایل او نے پاکستان سے فرار کرانے کا منصوبہ بنایا مگر بھٹو نے ملک سے فرار ہونے سے انکار کردیا۔ بھٹو مر گئے مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر نہیں جھکایا۔ نواب اکبر بگٹی ہمیشہ ’’مرکز کے آدمی‘‘ رہے مگر ایک وقت آیا کہ وہ پہاڑوں پر چڑھ گئے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں لائی تھی مگر عمران خان اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ مگر شریف خاندان 1980ء میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے جوتے چاٹ رہا تھا، 1990ء میں بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر جھکائے کھڑا تھا اور وہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ کا پالتو کتا بنا ہوا ہے۔ دائمی کتّے ایسے ہی ہوتے ہیں۔