روس، آئرلینڈ کو اسرائیل مخالفت کی قیمت چکانی ہوگی

674

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے چند ہفتے قبل حماس کے رہنماؤں کی روس آمد کے موقع پر کہا تھا کہ روس کو حماس کے رہنماؤں کی مہمانداری کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ایسا ہی ہوا ہے تو ماسکو میں ہونے والے حملے کا اصل ذمہ دار کون ہے یہ بات سمجھنے میں دقت ہی کیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ روس نے حماس کو براہ راست ہتھیار فراہم کیے اور روسی فوج نے حماس کے جنگجوؤں کو تربیت دی ہے۔ ’یہ درست ہے کہ روس کے حماس کے ساتھ طویل عرصے سے تعلقات رہے ہیں۔ روس نے کبھی بھی حماس کو شدت پسند نہیں کہا ہے۔ حماس کے نمائندوں نے پچھلے سال اور رواں سال بھی ماسکو کا دورہ کیا تھا‘۔ لیکن اسرائیل پر سفارتی سطح پر کاری ضرب اس وقت لگی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گزشتہ دنوں غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے سے متعلق امریکی قرارداد روس اور چین کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے باعث منظور نہ ہو سکی۔ جس کے فوری بعد ہی ماسکو میں کروکس سٹی ہال ماسکو کانسرٹ ہال حملے میں 137 ہلاک کر کے دنیا کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے جس ملک نے اسرائیل کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو اس کو قیمت چکانی پڑے گی۔ حملہ آوروں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ 2لاکھ 50ہزار روبل سے وہ دو سو سے زائد لوگوں کو موت کی نیند سلا رہے ہیں۔ حملہ آور چیچنیا کے صدر رمضان قادروف کی بھاگ دوڑ اور روسی خفیہ اداروں کی مدد کے نتیجے میں یوکرین اور روس کی سرحد پر گرفتار بھی ہوئے اور روس میں چار افراد پر دارالحکومت ماسکو کے ایک کانسرٹ ہال پر حملہ کرنے کے معاملے میں فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔ ان تمام ملزمان پر دہشت گردی کی کارروائی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اس قرارداد سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے جس میں تقریباً چھے ہفتوں کے لیے فوری اور ٹھوس جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا جو شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکے اور انسانی امداد لانے کی اجازت دے سکے۔ جس پر روس اور چین کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد اسرائیل کے بارے میں واشنگٹن کے موقف میں مزید سختی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سے قبل جنگ کے دوران پانچ ماہ تک امریکا جنگ بندی کے لفظ کے خلاف تھا اور اس نے ایسے اقدامات کو ویٹو کر دیا گیا تھا جن میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل میں کہا کہ کونسل کی اکثریت نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، لیکن بدقسمتی سے روس اور چین نے اپنا ویٹو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اطلاعات یہی ہیں کہ ابتدئی طور پر جمعے کو کروکس سٹی ہال پر ہونے والے حملے میں روسی حکام کے مطابق کم از کم 137 افراد مارے گئے تھے جبکہ 140 زخمی ہوئے تھے۔ لیکن مرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ یہ سب ہوگیا لیکن اس کے بعد جوکچھ روس کی حکومت نے کیا وہ ایک چھومنتر سا لگ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اوّل تو کوئی پکڑا نہیں جاتا اور سرحد پار کر جاتا ہے اور ہماری حکام یہی کہتے ہیں ملزم کے قریب ہیں اور کمر توڑ دیں گے اور ملزم نشان ِ عبرت بن جائے گا وغیرہ وغیرہ کی سی بکواس ہی بکواس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر کوئی بیرون ِ ملک سے گرفتار بھی ہو جائے تو پھر رحمان ڈکیت بن کر ہر کیس میں ضمانت در ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور قانون کی بلادستی نورا کشتی کی نظر ہو جاتی ہے۔

بی بی سی کے مطابق امریکا نے شدت پسند تنظیم دولت ِ اسلامیہ (داعش) کے بارے میں کہا ہے کہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے جبکہ روسی حکام اور چیچنیا کے صدر رمضان قادروف نے ثبوت دیکر بتایا کہ یوکرین اس حملے میں ملوث ہے۔ جبکہ یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ اتوار کو چھٹی کے دن چاروں ملزمان کو ماسکو کی عدالت میں اس حالت میں پیش کیا گیا کہ تین کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی جبکہ چوتھا ملزم وہیل چیئر پر تھا۔ ملزمان کے نام دلیردزون مرزویف، سید اکرمی، مراد علی، رجب علیزادے، شمس الدین فریدونی اور محمد صابر فیاضوف بتائے گئے ہیں۔ روسی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ملزمان نام اور شہریت غلط بتا رہے ہیں ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ان میں سے تین کو نقاب پوش پولیس نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر روس کے دارالحکومت کی باسمنی ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش کیا اور تینوں ملزمان زخمی نظر آ رہے تھے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مرزویف اور رجب علیزادے کی آنکھوں پر نیل پڑے ہوئے تھے اور رجب علیزادے کے کان پر پٹی بھی بندھی تھی۔ اطلاعات کے مطابق گرفتاری کی کوشش کے دوران ان کا کان جزوی طور پر کٹ گیا تھا۔ شمس فریدونی کا چہرہ بھی بری طرح سوجا ہوا تھا اور فیاضوف کو وہیل چیئر پر اس حالت میں عدالت میں لایا گیا کہ ان کی ایک آنکھ غائب تھی۔ ٹیلی گرام میسجنگ سروس پر جاری کیے گئے ایک عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ مرزویف تاجک شہری تھے اور انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔ بیان کے مطابق رجب علیزادے نے بھی ’اعترافِ جرم‘ کر لیا ہے۔ عدالت نے مزید کہا ہے کہ چاروں ملزمان کو مقدمے کی کارروائی سے قبل کم از کم 22 مئی تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

تاس نیو ز اور روسی میڈیا کے مطابق حملے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے قوم سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ماسکو کے کانسرٹ ہال پر فائرنگ میں ملوث چاروں مسلح افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں نے چھپنے اور یوکرین جانے کی کوشش کی تھی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یوکرین کی سرحد پر کچھ لوگوں نے ان حملہ آوروں کی روس داخل ہونے میں مدد کی۔ تاہم یوکرین نے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ اس نے مارچ کے اوائل میں روسی حکام کو خبردار کیا تھا کہ ممکنہ طور پر ماسکو میں ’بڑے اجتماعات‘ کو نشانہ بنا کر حملہ کیا جائے گا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ اس ماہ کے اوائل میں امریکی حکومت کے پاس ماسکو میں ایک منصوبہ بند دہشت گرد حملے کے بارے میں معلومات تھیں جس میں ممکنہ طور پر بڑے اجتماعات کو نشانہ بنایا جانا تھا۔

غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والے عالمی اخبارات اور رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آئرلینڈ کے وزیراعظم لیو وراڈکر نے ذاتی اور سیاسی وجوہات وزیراعظم کے عہدے اور ملک کی حکمران جماعت کی سربراہی مستعفی ہورہے ہیں۔ وراڈکر نے ڈبلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں فائن گیل کی سربراہی سے سبکدوش ہو رہا ہوں اور وزیراعظم کے عہدے سے بھی جلد استعفا دے دوں گا، نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام کرتا رہوں گا۔ 45 سالہ لیو وراڈکر نے کہا کہ مستعفی ہونے کا یہی صحیح وقت ہے۔ لیکن آئرلینڈ کے وزیراعظم لیو وراڈکے استعفے کا اچانک یہ صحیح وقت کہاں سے آگیا حقیقت یہ ہے کہ کچھ دن قبل لیو وراڈ امریکا کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ 1962ء میں سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی آئرلینڈ کے دورے پر آئے تھے جہاں انہوں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’’امریکا کو غزہ کے مظلوموں کی مد د کرنے ضرورت ہے‘‘۔ لیکن امریکا آج بھی ایسا کرنے میں ناکام ہے۔ بس اسی جملے نے آئرلینڈ کے وزیراعظم لیو وراڈ کے لیے مستعفی ہونے کے صحیح وقت کا تعین کر دیا تھا اور وہ مستعفی ہو گئے۔