حق کی قبولیت کا مسئلہ

590

انسان کے جوہر اور اس کی مجموعی استعداد کے تعین کے بہت سے پیمانے ہیں لیکن ان میں سے اہم ترین اور بلند ترین پیمانہ ’’حق‘‘ کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن یہ صلاحیت صرف ایک پیمانہ ہی نہیں ہے، یہ انسان کے جوہر اور اس کی استعداد کے فروغ کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کی حقیقی امارت اور حقیقی غربت، حقیقی علم اور حقیقی جہالت، حقیقی مراد اور حقیقی نامرادی کا تعلق اسی صلاحیت سے ہے۔
دُنیا کا کوئی انسان اس صلاحیت سے محروم نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود کم ہی لوگ اس صلاحیت کا مظاہرہ اور اس کا بھرپور استعمال کرپاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد نہ صرف اپنے جوہر اور استعداد سے ناواقف رہتی ہے۔ بلکہ وہ ان میں اضافے کی نعمت سے بھی محروم رہ جاتی ہے۔
قرآن و سنت کی تو بات ہی اور ہے، اسلامی تاریخ بھی ہمارے لیے کبھی ختم نہ ہونے والی معنویت کا سرچشمہ ہے۔ اس تاریخ کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جنہیں عام واقعات سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے، ان واقعات میں معنویت کا ایک سمندر موجزن ہے۔ اس سمندر کی بہت سی لہروں کا تعلق حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کے معاملات سے ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ مردوں میں ایمان لانے والے پہلے شخص تھے، بچوں میں یہ اعزاز سیدنا علیؓ کو حاصل ہوا اور خواتین میں یہ سعادت اُم المومنین سیدہ خدیجہؓ کو حاصل ہوئی۔ ان تینوں مثالوں میں دو حقائق اہم اور مشترک ہیں، پہلی حقیقت یہ ہے کہ تینوں واقعات میں حق کی شناخت اور قبولیت مثالی برجستگی کے ساتھ عمل میں آئی اور اس حوالے سے کسی روحانی یا نفسیاتی کشمکش کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ان تینوں مثالوں میں حق کی قبولیت کا عمل اتنا ہی فطری ہے جتنا کہ آفتاب کی روشنی کے پھیلنے اور ہر شے کو منور کردینے کا عمل۔ ان واقعات سے متعلق دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ تینوں واقعات میں حضور پاکؐ سے ذاتی تعلق اور قربت کا پہلو مشترک ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ رسول اللہؐ کے دوست ہیں۔ سیدنا علیؓ بھائی ہیں اور سیدہ خدیجتہ الکبریٰ آپؐ کی شریک حیات۔
دوسری مثال سیدنا عمر فاروقؓ کی ہے۔ آپ رسول اکرمؐ سے آگاہ تھے مگر نئے پیغام کے مضمرات پر شدید ردعمل موجود تھا اور آپ حضورؐ کے قتل کے ارادے سے ایک دن گھر سے نکلے تھے لیکن آپ کا راستہ تبدیل ہوگیا اور آپ اپنی بہن اور بہنوئی کے یہاں جا پہنچے۔ آپ وحی کے نزول کی بازگشت اور اس کا ذکر سنتے رہے تھے لیکن آپ نے وحی کے الفاظ خود نہیں سنے تھے اور جب یہ مرحلہ آیا تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر آپ نے ایمان لانے کا فیصلہ کرلیا۔
ایک مثال ان لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے اصرار کیا کہ اگر چاند دو ٹکڑے ہوجائے تو وہ اللہ اور اس کے آخری نبی پر ایمان لے آئیں گے، لیکن بالآخر کیا ہوا؟ شق القمر کا واقعہ ہوا لیکن کچھ ہی لوگ ایمان لائے اور اکثر لوگوں نے وہی کہا جو اس سے پہلے ہزار بار کہا جاچکا تھا یعنی یہ کہ محمدؐ تو جادو گر ہیں۔
اس سلسلے میں ابوجہل کی مثال کئی اعتبار سے اہم ہے۔ اول اول اسے حضورؐ کی نبوت کا یقین نہیں تھا لیکن بعد کے حالات سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اسے حضورؐ کے نبی آخر الزماں ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں تھا بس ایک ضد تھی، ایک انا تھی جو حق کے اور اس کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوگئی اور یوں ایک ایسا شخص نے جس کے تبدیلی قلب کے لیے حضورؐ نے خود دعا کی تھی، رہتی دنیا تک کے لیے ابوجہل یعنی جہل کی بدترین مثال بن کر رہ گیا۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا علیؓ اور سیدہ خدیجہؓ کے قبول اسلام کو دیکھا جائے تو اس میں نبی اکرمؐ کی ذات مبارکہ کے حوالے سے حق کی Realization کا پہلو غالب ہے اور اس ضمن میں حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے کو اہمیت حاصل ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے قبول اسلام کے واقعے کو دیکھا جائے تو اس میں حق کی شناخت اور قبولیت کا عمل ’’وحی‘‘ کے حوالے سے وقوع پزیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس ابوجہل کے لیے نہ رسول اکرمؐ کی ذات پاک حق کی قبولیت کا ذریعہ بن سکی اور نہ وحی اس کے کام آسکی۔ حالاں کہ وہ حضورؐ کی زندگی کا ’’شاہد‘‘ بھی تھا اور اس کا شمار عرب کے ’’مدبرین‘‘ میں بھی ہوتا تھا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ’’معجزے‘‘ کا مطالبہ کیا مگر اس کے باوجود ایمان لانے سے صاف انکار کردیا، تو ان کے لیے نہ رسول پاکؐ کی ذات اہم تھی نہ وحی۔ ان کے لیے کچھ اہم تھا تو ’’تجربہ‘‘… ٹھوس تجربہ… جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور اس کی تصدیق کرسکیں، مگر انہوں نے بالآخر اپنے ٹھوس تجربے کی بھی تردید کردی۔
ان مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے حق کا تجربہ اتنا فطری ہوتا ہے کہ گویا وہ اس کے ظہور کے منتظر ہوتے ہیں۔ ادھر حق ظاہر ہوتا ہے اور وہ کسی پس و پیش کے بغیر اسے قبول کرلیتے ہیں۔ ان میں اس حوالے سے کوئی کشمکش اور تردد کی کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح کچھ اور لوگوں کے لیے ’’حق‘‘ فطرتاً قابل قبول تو ہوتا ہے لیکن ان میں اس حوالے سے ایک طرح کی روحانی اور نفسیاتی کشمکش بھی ہوتی ہے، لیکن کشمکش اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ حق کا سامنا اور مشاہدہ نہیں کرتے۔ حق سامنے آتا ہے اور وہ اسے بلا تاخیر قبول کرلیتے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے جنہیں مطلق حق سے زیادہ ذاتی تجربے اور مشاہدے کے حق پر اعتبار ہوتا ہے اور وہ اسی کے حوالے سے حق کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن انہی لوگوں میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر منکشف ہوتا ہے کہ وہ ذاتی تجربے اور مشاہدے کے ’’حق‘‘ کے بھی کچھ ایسے قائل نہیں۔ انہیں اپنے بھٹکتے رہنے کی ’’دبی ہوئی‘‘ خواہش سے عشق ہوتا ہے اور وہ ساری عمر بھٹکتے ہی رہتے ہیں۔
ابوجہل کی شخصیت اور کردار انسانی نفسیات کے بعض اہم مگر منفی گوشوں کے انکشاف کا درجہ رکھتا ہے۔ ابوجہل کے نفس پر حضورؐ کے اعلان نبوت سے کیا کیفیتیں گزریں یہ تو خدا ہی جانتا ہے، لیکن تاریخی ریکارڈ کے ذریعے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں روز اوّل سے نبوت کے حوالے سے کوئی کشمکش نہیں تھی۔ وہ پہلے دن سے اپنی ضد میں واضح اور ’’مطمئن‘‘ تھا اور اس کی زبان اس کے پورے وجود کی علامت بن گئی تھی حالانکہ اس پر بہت جلد یہ حقیقت منکشف ہوگئی تھی کہ رسول اکرمؐ کا دعویٰ نبوت برحق ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ابوجہل مجسم ’’سماجی انا‘‘ (social ego) کا مظہر بن کر رہ گیا تھا۔ ایسی انا جو انسان کو حیوان کی سطح سے بھی نیچے گرا دیتی ہے کیونکہ نبی اور رسول ایک ایسی برتر حقیقت ہوتا ہے جس کا شعور و اعتراف حیوانات کو بھی ہوتا ہے۔
انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو کبھی اپنے سماجی، اقتصادی اور سیاسی وجود سے اوپر نہیں اٹھ پاتی اور اس کے لیے اس کا یہ وجود ہی پیمانے کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو جزیرہ نما عرب میں جیسے جیسے قوت و شوکت میسر آتی گئی لوگوں کی بڑی تعداد مسلمان ہوتی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں بالعموم اسلام کے ابدی پیغام نے نہیں مسلمانوں کی قوت، کامیابی اور غلبے نے مسلمان کیا تھا، اس کے سوا کوئی اور چیز انہیں مسلمان کر ہی نہیں سکتی تھی۔
اس مختصر سی گفتگو کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی بہت سی روحانی اور نفسیاتی و ذہنی سطحیں اور قسمیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ انسانوں سے ان کی سطح کے مطابق بات کرو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کو پیش کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے سلسلے میں یہ اہتمام بھی لازم ہے کہ اسے لوگوں کی سطحوں کے مطابق بیان کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
اسلامی تاریخ یا صوفیائے کرام کی ’’کامیابی‘‘ کا کسی نہ کسی انداز میں بڑا چرچا رہا ہے اور رہے گا، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں لیکن ان میں سے اہم ترین جواب یہ ہے کہ صوفیائے کرام کے یہاں انسانی سطحوں کا بے مثال ادراک ہمیشہ موجود رہا ہے اور ان سے بہتر مبلغ (Communicator) کا تصور محال ہے۔
مذہب اور نبوت کائنات کے برتر ترین حقائق ہیں، لیکن حق کی شناخت اور قبولیت کے جو اصول اعلیٰ ترین سطح پر کار فرما ہیں وہی اصول عام اور معمولی حقائق کی سطح پر بھی بعینہ موثر ہیں۔ جو لوگ ان سطحوں پر بھی حقائق کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے وجود کے انکار کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ اپنے جوہر اور اپنی استعداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔