ماہ رمضان اور غزہ

اہلِ ایمان کے لیے ماہِ رمضان ایمانی حرارت اور دینی واخلاقی قوت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے اس کی آمد سے قبل مسلم معاشرے میں خوشی کا سماں نظر آتا ہے، ہر شخص کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ میں اس ماہ میں یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کا قرب حاصل کروں اور اسے راضی کرنے کے لیے اعمالِ صالحہ کا پیکر بن جاؤں۔

2024ء کے رمضان المبارک کا آغاز ایسے المناک اور انسانیت سوز حالات میں ہورہا ہے کہ غزہ اور اس کا مغربی کنارہ لہولہو ہے، اسرائیل کی جارحیت اب تک30 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا خون چاٹ چکی ہے، 70 ہزار سے زائد شدید زخمی، جبکہ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ قابض اسرائیل کی درندگی نے معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ غزہ کو ہر طرف سے محصور کرکے بنیادی سہولیات سے محروم کردیا گیا ہے، جس کے سبب زندہ رہ جانے والے بھوک وپیاس کے کرب میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے جانوروں کا چارہ پیس کر استعمال کررہے ہیں۔

امتِ مسلمہ کے پاس ہر نعمت و عسکری قوت ہونے کے باوجود اتنی بے بسی جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اہلِ غزہ کی اولوالعزمی، ثابت قدمی، صبر وثبات مسلم عوام اور دنیا کے باضمیر لوگوں کو جلا بخش رہے ہیں۔ غیر مسلم ان کی عظیم بہادری وشجاعت پر سوال کررہا ہے کہ بالآخر ان کو اس مقام تک پہنچانے میں کون سی چیز محرک بنی ہے؟ ایسی کون سی تربیت ہے کہ دنیا کی ہر چیز چھن چکی ہے، کوئی مستقبل نہیں ہے، کھانے اور پہننے کے لیے کوئی شے دستیاب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ القدس کی آزادی کے لیے چاق چوبند ہیں؟ اسی طرح فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی قیادت اور مجاہدین کی عظمت کو سلام! جنگ کو 150 سے زائد دن گزرچکے ہیں لیکن وہ دشمن کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری مزاحمت تمہارے اختتام تک جاری رہے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین کے لیے اللہ کی مدد، اولوالعزمی اور ان کی اس معرکے سے قبل کی تیاری ہی اس جنگ کی طوالت کا سبب بنی ہوئی ہے، اور اسی بنیاد پر ان کی جانب سے اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم دشمن کو تگنی کا ناچ نچاتے رہیں گے جب تک کہ وہ فلسطین سے نکل نہ جائے۔

رمضان کی آمد سے قبل فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں القدس اور مقبوضہ فلسطین کے باسیوں سمیت پوری امت کو اس امر کی دعوت دی گئی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے آغاز ہی سے فلسطین کی آزادی کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں، اس وقت اسرائیل نے غزہ اور فلسطین کے باقی علاقوں میں درندگی کا بازا ر گرم کیا ہوا ہے اس کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ذیل میں اسماعیل ہنیہ کا پیغام اور مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے جاری کیا جانے والے اعلامیے کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔

29 فروری کو حماس کے رئیس اسماعیل ہنیہ نے بیروت میں خطاب کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا کہ ’’ہمارے عوام مسجد اقصیٰ اور اپنے مقدسات کے دفاع کے لیے مزاحمت کے تمام طریقوں پر عمل پیرا ہیں، اور یہ سلسلہ قابض اسرائیل کے فرار ہونے تک جاری رہے گا۔ معرکہ طوفانِ اقصیٰ کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ غزہ، القدس اور فلسطین کے باقی مقبوضہ علاقے آزاد ہوسکیں، اور ہمارے عوام حقِ خودارادیت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے جان و مال کی قربانی پیش کررہے ہیں، اسی جرم میں ان کے گھر مسمار کیے جارہے ہیں۔

اس منظرنامے میں پوری امت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اجتماعی طور پر فلسطین کی آزادی کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاد کیا، مختلف علاقوں کو فتح کیا، دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔ لہٰذا القدس کے اردگرد بسنے والوں، غزہ کے کنارے کے باسیوں اور مقبوضہ فلسطین کے لوگوں پر لازم ہے کہ رمضان کے آغاز ہی سے انفرادی واجتماعی طور پر مسجد اقصیٰ کی طرف عازمِ سفر ہوں، وہاں فرض نماز، قیام اللیل، اعتکاف کا اہتمام کرتے ہوئے قابض اسرائیل کا مسجد اقصیٰ سے محاصرہ ختم کرائیں۔

فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کا مشترکہ اعلامیہ

٭ہم پوری امت اور دنیا کے باضمیر لوگوں کو فلسطین کی آزادی، اسرائیل کے ظلم وجبر، نسل کشی اور صہیونی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے ماہِ رمضان میں عالمی سطح پر مؤثر آواز بننے کی دعوت دیتے ہیں۔

٭ماہِ رمضان میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ تمام ممالک کے دارالحکومتوں میں فلسطین کے حق اور قابض کی جارحیت کے خلاف احتجاج ومظاہرے کیے جائیں۔

٭ہم اپنے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ارضِ فلسطین آزاد ہوگی، اہلِ فلسطین حقِ خودارادیت سے زندگی بسر کریں گے، اور القدس اس کا دارالحکومت ہوگا، قابض اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے مزاحمت ومخالفت کے تمام طریقوں کو استعمال کیا جارہا ہے، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے اس ماہ مبارک کو ’’الطوفان العالمی للانتصار لفلسطین ولقضیتنا العادلۃ‘‘ (فسلطین کی آزادی کے لیے عالمی طوفان) قراردیا ہے۔

اس مشترکہ اعلامیے میں پوری امت کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ اس ماہِ رمضان کو فلسطین کی آزادی کے لیے مؤثر ہتھیار بنایا جائے۔ بحیثیت مسلمان انفرادی واجتماعی طور پر ہم پر درج ذیل امور کی پابندی ناگزیرہے:

1۔ مسئلہ فلسطین کی حقیقت کو احسن انداز میں سمجھنے کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے۔

2۔ فلسطین کی آزادی کے لیے جو بھی ذرائع ہوسکتے ہیں انہیں استعمال کریں۔ ان کے حق میں منعقد کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہوں، ان کی قربانیوں کو بیان کیا جائے، ان پر جو ظلم وستم کیا جارہا ہے اس کو اجاگر کیا جائے۔ اپنے قلم کے ذریعے فلسطین کی آزادی کی تحریک چلائی جائے، اپنی زبان کے توسط سے اس مسئلے کی حقیقت کو بیان کیا جائے۔

3۔اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر استقامت اختیار کی جائے۔

4۔ اپنی خصوصی دعاؤں میں اہلِ فلسطین کو یاد رکھیں۔

5۔ اس جہاد میں اپنے مال کے ذریعے حصہ ڈالنے کی کوشش کریں۔

6۔ اہلِ فلسطین کے حق اور قابض اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے جائیں۔

اللہ رب العزت اہلِ غزہ وفلسطین کی مدد ونصرت فرمائے اور مجاہدین کو غلبہ عطا کرے۔ آمین