ولا تھنو ولا تحزنو

449

سورہ آل عمران کی آیت نمبر 139کا ترجمہ ہے کہ: ’’غم نہ کرو دل شکستہ نہ ہو تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘ اس سے اگلی آیت کا ترجمہ ہے کہ اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف اہل ایمان کی ہمت اور حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں اس لیے کہ جنگ احد کی شکست سے مسلمان بہت غم زدہ تھے۔ جنگی شکست سے زیادہ غم اس بات کا تھا اس جنگ میں پیارے نبیؐ زخمی ہوئے تھے آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے دوسرا غم اور افسوس اس بات کا تھا کہ ہمارے کچھ ساتھیوں نے عین حالت جنگ میں اپنی جنگی کمانڈر (محمدؐ) کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، جیتی ہوئی بازی شکست میں تبدیل ہو گئی۔ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں جو بھی نشیب و فراز آتے ہیں یا یوں سمجھیے کہ جو بھی آزمائشیں آتی ہیں ان میں ہمیں رہنمائی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے ملتی ہے جس کے لیے ہمیں قرآن و حدیث سے رجوع کرنا پڑتا ہے اسی آیت میں آگے چل کر یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ یہ زمانے کے الٹ پھیر ہیں جو ہم لوگوں کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔

فروری 2024 کے انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے ہیں اس نے تمام جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس انتخاب نے ایسی ہولناک صورتحال پیدا کردی ہے کہ ملک کی سیاست ریاست معیشت تو پہلے ہی خطرے کے نشان تک پہنچ چکی تھی سالمیت بھی خطرے سے دوچار ہوتی نظر آرہی ہے احتجاج اور دھرنوں کے حوالے سے جتنا کچھ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں آرہا ہے حقیقی کیفیت اس سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے، بلوچستان میں ایسے نئے چہروں کو جتوادیا گیا ہے جن کا ملکی و صوبائی سیاست میں کوئی رول نہیں تھا بس کچھ لاڈلے قسم لوگ فارم 47میں جیت گئے ہیں اور ان علاقوں کے معروف لوگ اور مانوس چہرے ناکام ہو گئے ہیں اس کے بعد احتجاج کرنا تو ان کا فطری و قانونی حق ہے لیکن اس میں جو اہم بات ہے وہ یہ کہ دھرنے ایسی شاہراہوں پر دیے جارہے ہیں جس نے صوبے کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں حکومت سازی کے حوالے سے جو مذاکرات چل رہے تھے اس کا جوش خروش بھی اب کچھ ماند پڑتا جارہا ہے، اس لیے کہ ان پارٹیوں میں آپس میں جن نکات پر اتفاق ہوچکا تھا اس میں بھی کچھ دراڑیں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں اس لیے کہ ان پارٹیوں کے اندر بھی اختلافات کی لہریں ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ن لیگ کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ ملک کی معیشت کا دیو جو سامنے آرہا ہے اس کا ہم اکیلے ہی کیوں مقابلہ کریں اس سے تو ہماری سیاسی موت ہو جائے گی اس لیے کابینہ میں پی پی پی کو بھی شریک ہونا چاہیے دوسری طرف پی پی پی نے صوبہ پنجاب کی گورنر شپ اور اسپیکر شپ بھی مانگ لی ہے لیکن وزارتیں لینے سے کترا رہی ہے یعنی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔ اسی لیے ن لیگ کے اندر انتشار اور افتراق بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے پی پی پی میں بھی بلاول چار روز سے خاموش ہیں نامعلوم کیا بات ہے مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی میںجو ملاقات ہوئی ہے سوشل میڈیا نے ایک طوفان اٹھایا ہوا ہے اب تو گھریلو خواتین بھی یہ تبصرہ کررہی ہیں کہ مولانا حسب روایت حکومت کے ساتھ جائیں گے اور اس میں اپنا زیادہ حصہ لینے کے لیے وہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو دبائو میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

عنوان تو کچھ اور تھا لیکن درمیان میں ملکی سیاست کے اتار چڑھائو کا ذکر آگیا بہرحال یہ بھی ضروری تھا جماعت اسلامی کا جو انتخابی نتیجہ آیا ہے اس سے مایوسی کا پیدا ہونا فطری عمل تھا لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ جماعت ہاری نہیں ہے اسے ہرایا گیا ہے جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جماعت کی شکست کے اسباب کیا ہیں تو انہوں نے جو اسباب بتائے اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ پارٹی نہیں ہیں یہ بات ٹھیک یوں لگتی ہے کہ جب جنرل باجوہ کی توسیع کا معاملہ سامنے آیا تو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں پی پی پی، نون لیگ، تحریک انصاف اور جے یو آئی سب اس پر متفق تھے لیکن صرف جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب نے اس توسیع کی تحریری مخالفت کی تھی، ہمارے ملک کی سیاست کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ عوامی سیاست کرتی ہیں وہی اپنے سیاسی مستقبل کے لیے یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتی ہیں اور جماعت اسلامی صرف عوامی سیاست کرتی ہے جماعت اسلامی صرف ملکی اسٹیبلشمنٹ کی نظروں ہی میں نہیں کھٹکتی بلکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی جماعت اسلامی کے سیاسی اثر رسوخ کی توسیع پر خوف زدہ نظر آتی ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں جماعت اسلامی کی انتخابی مہم بہت جاندار اور شاندار چلی ہے اور اس نے ہر جگہ سیاست میں ایک ہلچل پیدا کی ہے لیکن کراچی میں تو جماعت جیت کے قریب پہنچ چکی تھی اس کی اصل حریف ایم کیو ایم جو بلدیاتی انتخاب میں راہ فرار حاصل کرچکی تھی وہ بھی نتیجے کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر تھی لیکن اسے پہلے نمبر پر لے آیا گیا ووٹوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کراچی میں پی ٹی آئی پہلے نمبر پر ہے جماعت اسلامی دوسرے نمبر پر تحریک لبیک تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی چوتھے نمبر پر اور ایم کیو ایم پانچویں نمبر پر ہے لیکن نتیجے میں پانچویں نمبر والی جماعت کو پہلا نمبر دلایا گیا اور چوتھے نمبر والی جماعت پی پی پی کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا باقی سب کو زیرو کردیا گیا یعنی قومی کی 15نشستیں ایم کیو ایم کو اور 7نشستیں پی پی پی کو دے دی گئیں اسی لیے کل پوری کراچی میںجماعت اسلامی کی طرف سے جو احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اس میں ایک بینر پر لکھا تھا کہ ڈیڑھ لاکھ ووٹ لینے والی جماعت ایم کیو ایم کو 15قومی اور 28صوبائی کی نشستیں دی گئیں اور 8لاکھ ووٹ لینے والی جماعت کو صرف ایک صوبائی سیٹ ملی۔

میں ایک کلپ دیکھ رہا تھا جس میں ایک خفیہ ایجنسی کے ریٹائرڈ آفیسر بتارہے تھے کہ 1970کے انتخابات میں آئی بی کی یہ رپورٹ آئی تھی کہ مغربی پاکستان سے جماعت اسلامی کلین سوئپ کررہی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو جو 6نشستوں پر کھڑے ہوئے ہیں وہ صرف لاڑکانہ کی نشست جیت پائیں گے باقی سب جگہ سے وہ ہار جائیں گے ہوسکتا ہے یہ رپورٹ 31مئی 1970 کو ہونے والے یوم شوکت اسلام کے ملک کے مختلف شہروں کے جلوس کو دیکھنے کے بعد آئی ہو سوال کیا گیا کہ کیا آئی ایس آئی کی بھی ایسی ہی رپورٹ تھی جواب آیا کہ اس وقت آئی ایس آئی کا یہ کام نہیں تھا یہ تو بھٹو صاحب جب وزیر اعظم تھے انہوں نے آئی ایس آئی کے اندر سیاسی ڈیسک بنایا تھا، یہ رپورٹ کسی حد تک ٹھیک تھی کہ اس زمانے میں ہم تحریک سے وابستہ تو نہیں ہوئے تھے لیکن ایک غیر جانبدار ذہن کے ساتھ ہر جماعت کی انتخابی مہم کو دیکھ (observe) رہے تھے ایک دن اپنے ایک دوست سے گھبراہٹ میں اچانک یہ سوال کیا کہ یار جماعت اسلامی آنے والی ہے اب کیا ہوگا اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ ابے آتی ہے تو آجائے ہمارا کیا ہم لوگ تو پہلے ہی نماز پڑھتے ہیں یعنی اس کے کیا ہم سب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جماعت اسلامی آئے گی تو نماز پڑھوائے گی حالانکہ اس انتخاب میں جماعت کتنی ہی بڑی تعداد میںکامیاب ہوتی لیکن اقتدار میں نہیں آسکتی تھی اس لیے کہ جماعت نے اس وقت 300 کے ایوان میں 148 افراد کھڑے کیے تھے ہاں ایک مضبوط اپوزیشن کرسکتی تھی اور وہ پھر کیا بھی جب جماعت کے پورے ملک سے صرف چار ارکان اسمبلی کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ ہمارے اگلے مضمون میں پڑھیے گا۔ ان شاء اللہ