جماعت اسلامی کی شکست فاتحانہ

546

جب انتخابات کے دوسرے دن صبح تک کراچی کے انتخابی نتائج نہیں آئے تو ایک صاحب الیکشن کمیشن کراچی کے دفتر گئے تو گیٹ پر انہوں نے ایک نوٹس پڑھا جو کچھ اس طرح کا تھا کہ ’’ہمیں بھی کراچی کے انتخابی نتائج کا انتظار ہے، منجانب ترجمان پاکستان الیکشن کمیشن‘‘۔ (سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ) پاکستان الیکشن کمیشن نے انتخابات کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ سب پورے ہو گئے اور جو چیزیں الیکشن کے حوالے سے نہ ہو سکیں اس کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا تھا، مثلاً پاکستان الیکشن کمیشن نے کہیں یہ وعدہ نہیں کیا تھا کراچی کے انتخابی نتائج کا پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد اعلان شروع ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے یہ اعلان کیا تھا کہ الیکشن شفاف ہوں گے وہ ہو گئے الیکشن کمیشن نے کہیں یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ کمیشن الیکشن کے نتائج بھی شفاف دے گا۔ الیکشن بھی شفاف ہو اور نتائج بھی شفاف ہوں دو کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح کمیشن نے یہ وعدہ کیا تھا الیکشن فیئر اینڈ فری ہوں گے وہ ہو گئے ہر پولنگ اسٹیشن پر 2بجے دن تک فیئر الیکشن ہوئے اور اس کے بعد سب فری ہو گئے یعنی سب کچھ فری ہوگیا۔
ہم لیاقت آباد بلاک پانچ کی طیبہ مسجد سے متصل مولوی عبد الحق اسکول میں ایک ہاتھ میں اسٹک اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ایک کزن ہاتھ پکڑ کے سہارے سے اسکول کے اندر گئے معلوم ہوا کہ ہمارا پولنگ اسٹیشن پہلی منزل پر ہے بڑی مشقت سے اوپر گئے صبح کا وقت تھا اس لیے زیادہ رش نہیں تھا چار پانچ افراد لائن میں تھے مجھے دیکھ کر ان سب نے کہا بڑے صاحب آپ پہلے چلے جائیں پھر گیٹ پر کھڑا پولیس والا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا پریزائیڈنگ آفیسر شاید مجھے جانتے تھے وہ اٹھ گئے اپنی سیٹ پر مجھے بٹھا دیا اور سارے مراحل میں مجھے اٹھ کر کہیں جانا نہیں پڑا پہلے انہوں نے انتخابی فہرست میں میری فوٹو کے سامنے انگوٹھے کا نشان لگوایا پھر اسی جگہ پر انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان لگایا پھر وہیں پر وہ قومی اور صوبائی بیلٹ پیپر لے آئے اور بیلٹ پیپر کی بک کی کائونٹر کاپی پر انگوٹھے کے نشان لگائے پھر مجھ سے کہا کہ اب آپ اٹھ کر وہاں باکس کے پیچھے جاکر بیلٹ پیپر پر مہر لگا کر یہاں ڈبوں میں ڈال دیں قومی کے لیے ہرا پیپر تھا اور ہرا ہی ڈبہ تھا صوبائی کے لیے سفید پیپر اور سفید ہی ڈبہ تھا پھر اس کے بعد اطمینان سے باہر آگیا میں نے یہ تفصیل اس لیے لکھی کہ جو اچھی باتیں ہوں ان کا بھی ذکر ہونا چاہیے کمرے سے باہر نکلے تو مجھے لوگوں نے بتایا کہ ایک پولنگ اسٹیشن اوپر کھلی چھت پر بنایا گیا ہے وہاں دھوپ میں پولنگ اسٹاف بھی بیٹھا ہے اور ووٹ بھی ڈلوائے جارہے ہیں میں اپنی تکلیف کی وجہ سے اوپر تو جا نہیں سکتا تھا لیکن متعلقہ نظم تک بات پہنچا دی تھی پھر واپس اپنے کیمپ میں آکر بیٹھ گیا بعد میں معلوم ہوا کہ شدید دھوپ والے اسٹیشن پر میری بیٹی پولنگ ایجنٹ تھی اس نے شام کو آکر تفصیل بتائی کہ کس طرح ایم کیو ایم کے کارکنان وہاں بوگس ووٹنگ کررہے تھے اور یہ ہر ایک سے جھگڑا کررہی تھی اس نے بتایا کہ ابو، اصل بات یہ تھی سارا پولنگ اسٹاف پریزائیڈنگ آفیسر سمیت ایم کیو ایم کا تھا نیٹ بند تھا اس لیے کہیں کوئی کمپلین بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔
ایم کیو ایم کا یہ پرانا طریقہ واردات ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر کوئی الگ کمرہ پہلے سے قبضے میں لے کر تالا ڈال دیا جاتا ہے اور اندر کارکنان بیٹھے ہوئے بوگس ووٹوں سے ڈبے بھر رہے ہوتے اس دفعہ بھی کہیں کہیں یہ کام ہوا لیکن زیادہ بڑا اور منظم کام آر او آفس کے اندر ہوا۔ جماعت کے بہت سارے امیدواران صوبائی اسمبلی احمد قادری، اکبر قریشی فاروق نعمت اللہ، نصرت اللہ، مسعود علی اپنے اپنے فارم 45 اور 46 لیے RO آفس کے باہر کھڑے رہے آر او فون نہیں اٹھا رہے تھے اور رینجرز والے اندر نہیں جانے دے رہے تھے لیاری کے سابق ایم پی اے کی یہ بات تو بڑی وائرل ہوئی کہ وہ بھی جب آر او آفس کے باہر کھڑے تھے اور انہیں اندر نہیں جانے دیا جارہا تھا تو ان کے پاس ایک فون آیا کہ اگر آپ اسمبلی میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کا ساتھ دینے کا وعدہ کریں یا ان پارٹیوں میں شمولیت کا اعلان کریں تو ہم پندرہ منٹ میں آپ کی کامیابی کا رزلٹ آپ کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں یہ گمنام فون وہی کررہے ہوں گے جو اندر نتائج بنا رہے تھے، جنید مکاتی تو اپنے حلقے میں ہر دفعہ الیکشن جیتتے ہیں اس دفعہ بھی وہ 40ہزارووٹ لے کر پانچ ہزار والے سے ہار گئے حالانکہ ان کے پاس بھی فارم 45اور 46تھے لیکن انہیں آر او آفس جانے نہیں دیا گیا اور پھر ان کے نتیجے کا اعلان کردیا گیا۔
میرے حساب سے تو 8قومی اسمبلی کے اور کم ازکم 10صوبائی اسمبلی کے جماعت کے امیدواران فارم 45اور 46کی بنیاد پر الیکشن جیت چکے لیکن ان کی اس جیت کو زبردستی شکست میں بدل دیا گیا، یہ کون کررہا ہے یہ وہی لوگ کررہے ہیں جنہوں نے کراچی سے ہار جانے والی تنظیم ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں ان کو 17قومی اور 28 صوبائی کی سیٹیں دے کر جان ڈال دی ہے۔ اسی طرح کی شکایات پی ٹی آئی کو بھی ہے کہ اس لیے ان کو بھی کراچی سے جماعت اسلامی کے بعد سب جماعتوں سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں اسی لیے پی ٹی آئی نے کراچی کے انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے بھی پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں کراچی کے نتائج چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے کیا ایک اینکر کے اس تبصرے میں بڑی گہرائی ہے کہ کراچی میں حافظ نعیم کی ٹیم کو اس لیے ہرایا گیا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کی مختلف مافیاز کو چیلنج کیا ہے چاہے وہ کے الیکٹرک مافیا ہو چاہے وہ بلڈر مافیا ہو چاہے وہ ٹینکرز مافیا ہو اور بھی تمام ایسے ادارے اور گروپس جو کراچی کے عوام کا خون چوس رہے ہیں ان تمام مافیائوں کے خلاف حافظ نعیم الرحمن اہل ِ کراچی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک توانا آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔