پاکستان متنازع انتخابات

266

الحمدللہ! دھماکوں، دھمکیوں، خوف و ہراس، خطرات اور خدشات کی فضا میں ملک بھر میں بڑی حد تک پُرامن ماحول میں عام انتخابات کا معرکہ سر ہوگیا۔ انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 7 سو 60 لوگ بطور رائے دہندہ رجسٹر تھے جو حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک کی کُل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 99 ہزار 4 سو کا 58 فیصد بنتے ہیں، مگر دلچسپ صورتِ حال یہ تھی کہ اگرچہ مجموعی ملکی آبادی میں خواتین کو اکثریت حاصل ہے مگر رجسٹرڈ رائے دہندگان میں معلوم نہیں کیوں خواتین کی تعداد اور تناسب مردوں کے مقابلے میں قابل ذکر حد تک کم تھا۔ مرد رائے دہندگان کی تعداد 6 کروڑ 92 لاکھ 63 ہزار 7 سو 4، جب کہ خواتین میں 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56 رائے دہندگان رجسٹرڈ تھیں، اس طرح مرد رائے دہندگان کا مجموعی تعداد میں تناسب 54 فیصد اور خواتین کا 46 فیصد رہا۔ موجودہ نظام میں ہر بالغ شہری 18 برس کی عمر کو پہنچنے پر ازخود حقِ رائے دہی کا مستحق قرار پا جاتا ہے اور اس کے لیے کسی کی مرضی کا عمل دخل نہیں، اس لیے یہ تضاد حیران کن ہے کہ آبادی میں خواتین کا تناسب زیادہ ہونے کے باوجود رائے دہندگان کی تعداد میں یہ تناسب خاصا کم کیوں ہے! اس کی وضاحت الیکشن کمیشن کے اربابِ اختیار کے ذمے ہے۔

بہرحال رائے دہندگان کی تعداد کے لحاظ سے یہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات تھے جن میں عوام نے قومی اسمبلی کی 265 اور صوبائی اسمبلیوں کی 590 نشستوں کے لیے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس تو اگرچہ 166 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں تاہم انتخابی میدان میں ایک درجن کے قریب جماعتیں ہی فعال نظر آئیں۔ قومی خزانے سے ان انتخابات پر کم و بیش نصف کھرب روپے خرچ ہوئے، جب کہ امیدواروں، ان کے حامیوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقوم یقینا اس سے کہیں زیادہ ہوں گی جن کا حساب لگانا آسان نہیں۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لیے ایک کروڑ اور چالیس لاکھ روپے فی حلقہ فی امیدوار کی حد مقرر کر رکھی ہے، مگر یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ اکثر امیدواروں کے اخراجات اس حد سے خاصے متجاوز ہوتے ہیں اور انتخابات کے بعد قانونی کارروائی پوری کرنے کے لیے جو حسابات الیکشن کمیشن کو جمع کرائے جاتے ہیں ان میں فرضی اعداد و شمار کی خانہ پُری کے ذریعے ہر امیدوار اپنا خرچ مقررہ حد سے کم ہی ظاہر کرتا ہے۔

قومی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر 5172 امیدوار میدان میں اترے، جن میں سے 4858 مرد، 312 خواتین اور 2 امیدوار مخنث بھی تھے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے میدان میں اتارے گئے امیدواروں کی تعداد 1870 تھی جن میں سے 1777 مرد اور 93 خواتین تھیں، جب کہ 3302 آزاد امیدوار مقابلے میں حصہ لے رہے تھے جن میں سے 3081 مرد، 219 خواتین اور 2 مخنث تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار ملکی تاریخ میں پہلی بار سامنے آئے تھے جس کی اہم ترین وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس فیصلے کی توثیق تھی۔ یوں تحریک انصاف کے نام پر کثیر تعداد میں امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اترنے پر مجبور ہوئے۔ قومی اسمبلی کے لیے سب سے زیادہ امیدوار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں تھے جن کی تعداد 243 تھی، جب کہ جماعت اسلامی 230 امیدواروں کے ساتھ دوسرے اور تحریک لبیک 217 امیدواروں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے خواہاں میاں نوازشریف سے منسوب مسلم لیگ (ن) نے 207 امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا۔

ارباب ِاختیار و اقتدار کے طرزعمل اور قدرے ملکی حالات کے سبب انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد اگرچہ آخری وقت تک شکوک و شبہات کی زد میں رہا کہ انتخابات سے ایک روز قبل پشین میں آزاد اور قلعہ سیف اللہ میں جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیدوار کے انتخابی دفاتر کے باہر بم پھٹنے، مستونگ اور پنجگور میں پولنگ اسٹشینوں پر بم حملوں ، وزیرستان میں ایک امیدوار کی گاڑی کے قریب بم پھٹنے اور حافظ حمد اللہ پر قاتلانہ حملے کے دوران 30 افراد شہید جب کہ 55 زخمی ہوگئے۔ یہ انتہائی افسوس ناک واقعات انتخابات کے التوا کا جواز بن سکتے تھے، مگر شکر ہے ایسا نہیں کیا گیا اور انتخابات 8 فروری ہی کو منعقد کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنایا گیا جن کی سیکورٹی کو فول پروف بنانے کے لیے مسلح افواج، سول آرمڈ دستوں اور پولیس کے تقریباً 6 لاکھ اہلکاروں نے ڈیوٹی دی، چنانچہ ملک بھر میں انتخابات کا بڑی حد تک پُرامن انعقاد ممکن ہوسکا، مگر حیران کن امر یہ بھی ہے کہ کئی مقامات خصوصاً کراچی میں کئی جگہوں پر پولنگ اسٹیشنوں میں ہنگامہ آرائی، بیلٹ باکس توڑنے، اور چھین کر بھاگ جانے جیسے واقعات کے دوران یہ سیکورٹی اہلکار نامعلوم کن وجوہ سے اور کس کی ہدایت پر خاموش کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور کھلی لاقانونیت کو روکنے کے لیے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کیا دھاندلی اور قانون شکنی کے ایسے واقعات کو روکنا کسی اور کی ذمہ داری تھی؟

8 فروری سے کئی روز قبل سے یہ افواہ عام تھی کہ انتخابات کے روز موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کردی جائے گی جس کی تردید نگران حکمرانوں کی طرف سے کی جاتی رہی، عین انتخابات کے روز کے اخبارات میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی یہ وضاحت نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی تھی کہ ’’ملک بھر میں کہیں بھی انٹرنیٹ سروس آج بند نہیں ہوگی‘‘۔ مگر 8 فروری کی صبح طلوع ہوئی تو انٹرنیٹ سروس اور موبائل فون سروس دونوں بند تھے جس کی ذمہ داری وفاقی وزارتِ داخلہ نے قبول کرتے ہوئے جواز یہ فراہم کیا کہ حفاظتی اقدامات کے لیے یہ ناگزیر تھا۔ فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہونے سے رائے دہندگان، امیدواران اور ان کے کارکنان کو باہم رابطوں میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ٹرانسپورٹ مہیا کرنے والی کمپنیوں کا کاروبار بھی اس روز صبح سویرے سے رات گئے تک مکمل بند رہا جس سے ان کمپنیوں کے کاروباری نقصان کے علاوہ عوام کو پولنگ اسٹیشنوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں بے پناہ مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور انتخابی عمل بھی خاصا متاثر ہوا۔ 8300کے ذریعے ووٹ سے متعلق معلومات کی فراہمی کی سروس کا نظام بھی اس روز پوری طرح کام نہ کرسکا، پھر نہ جانے کس مصلحت کے تحت ایک ہی گھر کے مختلف افراد کے ووٹ شہر کے مختلف کونوں بلکہ بعض جگہ مختلف شہروں کے انتخابی مراکز میں رکھ دیے گئے جس سے عوام کو نہ صرف شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ رائے دہندگان کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کوشش کے باوجود اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہی۔ بعض مبصرین کی رائے میں ایسا مخصوص مقاصد کے حصول کی خاطر سوچ سمجھ کر کیا گیا۔

انتخابات کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا سلسلہ بھی کھلے بندوں جاری رہا جس کے خلاف اعلانات کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ بعض جگہ انتخابی عملے کی جانب داری کی شکایات بھی سامنے آئیں، مثلاً راقم الحروف کو ذاتی طور پر یہ تجربہ ہوا کہ صوبائی اسمبلی کا بیلٹ پیپر دیتے ہوئے پولنگ افسر نے مجھ سے آگے کھڑے شخص کو ہدایت کی کہ شیر کے نشان پر مہر لگائے، اس پر اپنی باری پر جب میں نے ان صاحب سے استفسار کیا کہ میں کہاں مہر لگائوں؟ تو پولنگ افسر نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ’’آپ اپنی مرضی کے جس نشان پر چاہیں مہر لگا دیں‘‘… اس طرح کی اور بھی بہت سی بے ضابطگیاں اور عملے کی جانب داری کی کئی اور مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں، بعض جگہ عملے کے ارکان کسی ایک امیدوار کے حق میں خود مہریں لگاتے یا پہلے سے مہریں لگے سیکڑوں کی تعداد میں بیلٹ پیپر بیلٹ بکسوں میں ڈلواتے رہے مگر دیگر امیدواروں کے نمائندوں کے شدید احتجاج اور تحریری شکایات کے باوجود کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

ان انتخابات کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ رائے دہندگان نے اصحابِ اختیار کی طرف سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے قبل از وقت کیے گئے اقدامات کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا اور اشرافیہ اور ایک مخصوص طبقے کی بالادستی کو توڑنے کے لیے شدید جذبات کا اظہار بیلٹ باکس کے ذریعے کیا، اور ’’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے‘‘ کی کیفیت بار بار ابھر کے سامنے آتی رہی۔ اس کیفیت کا عکس آٹھ فروری کی رات بارہ بجے تک ذرائع ابلاغ کی طرف سے نشر یا ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے انتخابی نتائج میں نمایاں طور پر محسوس کیا جا رہا تھا۔ ان انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے اشرافیہ کے زیراثر نجی چینلز اور ان کے مبصرین بھی اپنے سرپرستوں کو یہ مشورے دیتے پائے گئے کہ ’’اب بس کردیا جائے‘‘۔ شاید انہی مشوروں کا اثر تھا کہ رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب الیکشن کمیشن نے واضح اعلامیہ جاری کردیا کہ ذرائع ابلاغ سے نشر کیے جانے والے نتائج درست نہیں ہیں، وہی نتائج درست اور قابلِ قبول ہوں گے جو الیکشن کمیشن خود جاری کرے گا۔ پھر جو کچھ ہوا کسی سے پوشیدہ نہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوتے ہی کئی الٹے ہوئے برج پھر سے سیدھے ہوگئے۔ آر۔ اوز کے دیے ہوئے نتائج اور پولنگ اسٹیشنوں سے کامیاب قرار پانے والے امیدواروں کی اچھی خاصی تعداد صبح ہونے تک شکست خوردہ اور ہارتے ہوئے لوگ کامیاب ٹھیرائے جا چکے تھے۔

انتخابات کے انعقاد پر عوام اس لیے بھی خوش تھے کہ آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 90 دن کے بجائے وفاق میں چھ ماہ اور صوبہ خیبر و پنجاب میں ایک سال سے بھی زائد عرصے سے مسلط اشرافیہ کے تابع اور من پسند مہروں یعنی نگران حکمرانوں سے نجات مل سکے گی اور عوام کے منتخب نمائندے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر لوگوں کے مسائل کے حل کی راہ تلاش کر سکیں گے، مگر الیکشن کمیشن کے جاری کردہ موجودہ نتائج اس امر کی غمازی کررہے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے لیے اپنی حکومت بنانا آسان نہیں ہو گا، اور جو بھی حکومت بنے گی وہ اشرافیہ کے مہروں کی مرہونِ منت ہو گی۔ ان مہروں کے ذریعے اشرافیہ کو اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ، جوڑتوڑ کے ذریعے حکومتیں بنانے، بگاڑنے اور من پسند لوگوں کو وزارتوں تک پہنچانے کا پرانا کھیل جاری رکھنے میں خاصی سہولت رہے گی۔ ایسی حکومت جو مضبوط اور مستحکم سیاسی بنیادوں پر کھڑی ہوئی نہیں ہوگی وہ قوم کی مرضی اور مفاد کے مطابق دوررس اور انقلابی پالیسیاں بنا سکے گی نہ ہی ملک کو سیاسی استحکام اس طرح حاصل ہوسکے گا۔ اب عوام بجا طور پر یہ سوال کررہے ہیں کہ اگر اسی طرح کے مرضی کے نتائج قوم پر مسلط کرنا تھے تو انتخابات کا ڈھونگ رچانے اور اس پر قومی خزانے کا نصف کھرب سے زائد سرمایا اور عوام کا قیمتی وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی… موجودہ نگرانوں کو توسیع دینے کے سو بہانے تلاش کیے جا سکتے تھے…!!!