میں ووٹر ہوں کسی اور کا مجھے گنتا کوئی اور ہے

485

سلیم کوثر کی ایک معرکہ آرا غزل کا پہلا مصرع ہے کہ ’’میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘‘ یہ ایک بڑی خوبصورت غزل ہے۔ معروف قلم کار عطا الحق قاسمی کے بھائی مرحوم ضیاء الحق قاسمی نے اس کی پیروڈی میں مزاحیہ نظم لکھی جس کا پہلا مصرع ہے ’’میں لحاف ہوں کسی اور کا مجھے اوڑھتا کوئی اور ہے‘‘، عنوان سے یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ 8فروری کے انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے کچھ باتیں کرنا مقصود ہے۔ معروف صحافی اور دانشور اوریا مقبول جان کی انتخاب کے حوالے سے یو ٹیوب پر ایک پوڈ کاسٹ دیکھنے کا موقع ملا جس میں وہ بتارہے تھے کہ نواز شریف اپنی لاہور کی نشست بہت بڑے مارجن کے ساتھ ہار رہے تھے یہ بات صحیح بھی ہے کہ میں خود رات گئے تک ٹی وی چینل پر جو نتیجہ دیکھ رہا تھا اس میں پی ٹی آئی کی آزاد امیدوار یاسمین راشد نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے اور نواز شریف نے 74ہزار کچھ ووٹ حاصل کیے تھے، تقریباً 40ہزار کا فرق تھا کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج باقی تھے، ایک تبصرے معروف صحافی سہیل وڑائچ بتارہے تھے کہ اگر ہارنے اور جیتنے والوں کے درمیان پانچ سے دس ہزار ووٹوں کو فرق ہو اور کچھ حلقوں کے نتائج باقی ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ نتیجہ بدل سکتا ہے لیکن جہاں تیس چالیس ہزار کا فرق ہو تو وہاں نتیجے میں تبدیلی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں دوسرے دن کے اخبارات میں بھی یہ خبر شائع ہو گئی تھی کہ نواز شریف اپنی دونوں نشستوں سے ہار رہے ہیں لیکن 9فروری کی صبح جب دوبارہ ٹی وی پر نتیجہ دیکھنے بیٹھے تو پتا نہیں کیا جادو چل گیاکہ نواز شریف جیت گئے اور یاسمین راشد پیچھے رہ گئیں۔

اوریا مقبول جان کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کو سوچنا چاہیے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ کسی کی بھیک سے جیتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ وزیراعظم بن بھی گئے تو پھر ایسے ہی ہوگا کہ جیسے کسی بچے کو کچی پنسل سے حروف لکھ کر دے دیے جائیں کہ تم اس پر ہاتھ پھیرو۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے ایک سینئر آفیسر جو میرے دوست ہیں انہوں نے بتایا کہ 8ایس ایچ اوز کو ساتھ لیا گیا ساتھ میں کچھ بڑی گاڑیاں تھیں اس میں کچھ اور لوگ تھے جو مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر گئے تھے پھر انہوں نے کہا کہ جس طرح پورے ملک میں نتائج تبدیل کیے جارہے ہیں اس سے کوئی پائدار حکومت کی تشکیل مشکل نظر آتی ہے میرا خیال ہے کہ اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو وہ مئی جون تک چل پائے گی تاکہ اگلے سال کا بجٹ منظور ہو جائے اگر مزید حکومت چلی تو مشکل سے سال ڈیڑھ سال تک چل پائے گی۔ پورے ملک میں جس طرح نتائج تبدیل کیے جارہے ہیں اس سے عوام میں شدید بے چینی اور اداروں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے کے پی کے کے علاقے شانگلہ میں جہاں ن لیگ کے امیدوارامیر مقام پی ٹی آئی کے امیدوار فرین سے ہار گئے تھے وہاں فارم 45اور 46 کے مطابق آزاد امیدور جیت گئے تھے ٹی وی پر ان کی جیت کا اعلان بھی ہوگیا لیکن پھر اس کا نتیجہ تبدیل کردیا گیا اس کے ردعمل میں وہاں عوام نے احتجاج کیا تو خونریز تصادم کے نتیجے میں تحریک انصاف کے چار کارکنان ہلاک اور دس سے زائد زخمی ہو گئے۔

یہ جو 96 نشستوں پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں وہاں پر عوام جس طرح امڈ کر جذباتی انداز میں ووٹ ڈالنے آئے وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے حلقے میں کھڑا ہونے والا تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار بہت نیک پرہیزگار اور مرجع

خلائق ہے نہ وہ عمران خان کی محبت میں آئے ہاں وہ عمران خان کی ہمدردی میں ضرور آئے لیکن اس سے زیادہ اداروں کے رویوں پر لوگ اپنا غصہ نکالنے کے لیے آئے اور بھرپور انداز میں اپنے ووٹ کاسٹ کیے جبکہ پی ٹی آئی کو ٹھیک سے انتخابی مہم بھی نہیں چلانے دی گئی ان کے کوئی جلسے یا کارنر میٹنگ بھی نہیں ہونے دی گئی ہمارے یہاں تو ان کے انتخابی کیمپ بھی کہیں نظر نہیں آئے لیکن پھر بھی لوگ جوق در جوق ووٹ دالنے کے لیے گھروں سے نکلے کراچی میں تو جماعت اسلامی کو اور پی ٹی آئی کو ہی ووٹ پڑے ہیں ایم کیو ایم کہیں تیسرے اور کہیں چوتھے نمبر تھی اور کراچی کے بعض علاقوں میں تو یہ بہت نیچے پر تھی ہماری ایک رشتہ دار خاتون ایک پولنگ اسٹیشن پر پولنگ آفیسر تھیں وہ بتا رہی تھیں کہ جو بھی ڈبا گنتی کے لیے کھولتے تو اس میں ترازو کے ووٹ ملتے اس کے بعد تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کے بیلٹ نکلتے لیکن ایم کیو ایم کے بہت کم ہوتے ایک ڈبے کا بتایا کہ اس میں 55ترازو کے ووٹ نکلے 45تحریک انصاف کے تو صرف 5ووٹ ایم کیو ایم کے تھے یہ صورتحال کراچی کے ضلع وسطی اور ضلع شرقی اور جنوبی میں زیادہ تر رہی لیکن پھر ایسا جادو چلا کہ بیلٹ باکس میں بری طرح ہارنے والی ایم کیو ایم کو اس طرح جتایا گیا کہ کراچی میں ان کی اب تک 15اور ٹوٹل 18نشستیں ہو گئیں ہیں اور ابھی اس میں بڑھنے کے امکانات ہیں۔

انتخابات سے کچھ دن پہلے مصطفی کمال اور فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ 2018 میں ہماری چھینی ہوئی 14نشستوں کو واپس دلائے اس کا مطلب ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے یہ التجا کررہے ہیں کہ کراچی میں آپ ہمیں جتوائیں اس لیے کہ اب ایم کیو ایم کی عوامی حمایت رو بہ زوال ہے اسی لیے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی جیت سے عوام میں اس طرح کے خوشی کے جذبات نظر نہیں آرہے جو اس سے پہلے نظر آتے تھے کہ گلیوں میں نوجوان سائلنسر نکال کے بائیک دوڑاتے ہوئے نعرے لگاتے اور جھنڈے لہراتے ہوئے گھومتے رہتے تھے لیکن اس دفعہ کچھ نہیں۔ اس التجا کا ایک دوسرا نکتہ یہ بھی تھا کہ جب آپ نے ہماری 14نشستیں لے کر تحریک انصاف کو دی تھیں تو ہم نے کوئی احتجاج دھرنا یا شور شرابہ نہیں کیا تھا بلکہ آپ کی اطاعت اور فرمابرداری میں خاموشی اختیار کرلی تھی تو آئندہ بھی آپ کی اطاعت اور فرمابرداری کا سلسلہ جاری رہے گا چنانچہ ان کی درخواست قبول کرلی گئی۔ سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی جیت ایسے ہی ہے کہ جیسے حکومت نے 75روپے کے نوٹ تو چھاپ دیے لیکن پبلک نے اسے قبول نہیں کیا۔ نواز شریف کی فتح پر ایک دلچسپ پوسٹ اس طرح تھی کہ جیسے کسی شخص کے یہاں لڑکا پیدا ہوا ہو لوگ اسے مبارک باد دینے کے لیے آرہے ہوں اور وہ یہ سوچ رہا ہو کہ کاش یہ میرا ہی بیٹا ہوتا۔

موجودہ انتخاب پر ملکی حلقوں اور سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں کی طرف سے مختلف سوالات اٹھانے کے ساتھ بیرونی دنیا بالخصوص امریکا برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے انتخابی عمل کی شفافیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا بروقت اور مکمل نتائج کا منتظر ہے جو پاکستانی عوام کی مرضی کی عکاسی کریں۔