بزرگوں کو سب نے نظرانداز کردیا

436

ہم نے جب سیاسی جماعتوں کے منشور کا جائزہ لیا تو ہمیں ایک بات شدت سے محسوس ہوئی ہے کہ سب جماعتوں نے بزرگوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی، ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ وہ ہندوستان اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے وہ گھر میں موجود رشتہ داروں سے باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں ڈاکیہ آیا اور ایک لفافہ دے گیا معلوم ہوا کہ گھر میں موجود ایک بزرگ خاتون کے نام کا لفافہ تھا جس میں کچھ رقم تھی گھر والوں نے بتایا کہ یہ بزرگوں کا وہ الائونس ہے جو حکومت کی طرف سے ہر ماہ باقاعدگی سے آتا ہے اب وہ بوڑھے لوگ قطع نظر اس سے کہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، ان کو کوئی پنشن ملتی ہو یا نہ ملتی ہو وہ بزرگ صاحب جائداد ہوں یا نہ ہوں اور یہ بھی کہ وہ بزرگ مالی طور پر خوشحال ہوں یا نہ ہوں ان کی اولادیں ان کی کیئر کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں، ریاست ایک شفیق ماں کے مانند اپنی ذمہ داری ادا کرتی ہے ہاں یہ کہ کوئی بزرگ خود ہی یہ کہہ کر معذرت کرلے کہ وہ اچھے حالات میں زندگی بسر کررہا ہے انہیں اس الائونس کی ضرورت نہیں، یہ کسی اور بزرگ کو جو استحقاق رکھتے ہوں دے دیا جائے۔ اسی طرح کئی برس قبل میں نے اپنے کئی رشتہ دار بزرگوں کے بارے میں سنا کہ وہ کینیڈا میں اپنے بچے کے پاس پھر چلے گئے اب مستقل وہیں رہیں گے یہ پھر کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ وہ بچے کے پاس آتے جاتے رہتے تھے، وہ وہاں بیمار ہو گئے پہلے تو اسپتال میں علاج اور دیکھ بھال ہوتی رہی پھر یہ وقت آیا کہ وہ اسپتال جانے سے معذور ہوگئے گھر میں کوئی اور فرد نہیں تھا جو انہیں اسپتال لے جائے اور ان کا علاج کرائے ایسی صورت میں حکومت کی طرف سے ہر ہفتے ڈاکٹر ان کو گھر پر دیکھنے کے لیے آتا اور دوائیں وغیرہ دے جاتا اسی طرح اگر کسی وقت فزیو تھراپسٹ کی ضرورت پڑی تو وہ بھی ان بزرگ کی تھراپی کرنے گھر پابندی سے آتا تھا پھر وہ بزرگ کچھ بہتر ہوئے تو واپس پاکستان اپنے گھر والوں کے پاس آگئے یہاں جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو وہ سہولتیں نہ مل سکیں جو انہیں کینیڈا میں حاصل تھیں چنانچہ وہ دوبارہ واپس کینیڈا چلے گئے۔

ہمارے ملک میں سب سے مظلوم طبقہ ان بزرگوں کا ہے جو عمر کے اس حصے میں داخل ہوگئے ہیں کہ اب اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے یہ مظلومیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب بیٹے اگر نافرمان نہ بھی ہوں لیکن اپنے باپ کی وہ دیکھ بھال نہیں کرتے جیسا کہ ان کو ضرورت ہے اور وہ بیٹے اپنی دنیا میں مست اور اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔ کئی ایسے بڑی عمر کے لوگ جو میرے رابطے میں ہیں مجھ سے کہتے ہیں کہ جاوید بھائی اب تو بلدیہ میںکئی یو سیز اور ٹائون آپ کے پاس ہے کہیں کوئی سلسلہ ہو تو ہمیں بھی کہیں کھپائیے بڑی پریشانی کے دن گزر رہے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ ایسے لوگوں کی ان کے گھروں میں گرم الفاظ سے طعنوں و تشنیع سے جو درگت بنائی جاتی ہے وہ ان کا دل ہی جانتا ہے، بعض لوگوں کی تو بات کرتے کرتے آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں ہم بھی سوچ کر رہ جاتے ہیں کہ کیا کریں سوائے انہیں دلاسا اور تسلی دینے کے کچھ نہیں کرسکتے ادھر یو سیز کے مسائل بھی بڑے گمبھیر ہیں ہم جب افغانی صاحب کے زمانے میں کونسلر تھے دفتر کے لیے ایک چپراسی ہوتا تھا سارا کام خود کرنا پڑتا تھا نعمت اللہ خان کے زمانے میں ہر یوسی ناظم کو ایک سیکرٹری اور چپراسی ملتا تھا میرا بیٹا یو سی چیئرمین اور میں وارڈ کونسلر ہوں یوسی کا حال یہ ہے کہ سیکرٹری کے علاوہ 8دیگر ملازمین ہیں جن کا کام کیا ہے کچھ پتا نہیں، 35سے 55ہزار تک ان کی تنخواہیں ہیں پانچ لاکھ ماہانہ جو یوسی میں آتے ہیں اس میں سے ساڑھ چار لاکھ روپے تو تنخواہوں میں نکل جاتے ہیں اور اسٹاف کچھ دیر کے لیے دفتر آتا ہے چائے پیتا ہے گپ شپ کرتا ہے پھر واپس گھر چلا جاتا ہے ایک صاحب تو ایسے ہیں جو کمپیوٹر آپریٹر کی پوسٹ پر ہیں میرپورخاص میں رہتے ہیں دفتر بالکل نہیں آتے، تعلیم کچھ نہیں کمپیوٹر بالکل نہیں جانتے پی پی پی کی سفارش پر رکھے گئے ان کی سیکرٹری اور کلرک نے بڑی تعریف کی کہ بڑا اچھا بندہ ہے پھر بالواسطہ یوسی چیئرمین کو یہ آفر یا تجویز دی گئی کہ آپ اپنی جماعت کا کوئی بندہ رکھ لیں یہ شخص ہر ماہ ایزی لوڈ کے ذریعے پندرہ بیس ہزار ماہانہ بھیج دیا کرے گا۔ چیئرمین نے اس بات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی اور اسے مسترد کردیا پھر اس بندے نے خود ہی اپنا ٹرانسفر کرالیا۔ خیر بات دوسری طرف نکل گئی ہم اپنے معاشرے کے مظلوم اور محروم بزرگوں کی بات کررہے تھے۔ ن لیگ کا منشور عرفان صدیقی نے بنایا ہے ان کا بچپن عسرت اور غربت میں گزرا ہے اسی لیے منشور میں کچھ جھلک نظر آتی ہے لیکن ان کا بڑھاپا چونکہ عیش و عشرت میں گزر رہا ہے اس لیے انہوں نے بزرگوں کے لیے کچھ نہیں سوچا۔ بوڑھوں کو کیا چاہیے 2روٹی نہیں، دوا علاج نہیں، روپیہ پیسہ نہیں انہیں آپ کی محبت عزت و احترام چاہیے آپ کی توجہ چاہیے باقی سب چیزیں تو اسی ذیل میں آجائیں گی۔

ٹی وی پروگرام حسب حال میں سہیل اختر بتا رہے تھے انگلینڈ میں ایک خاتون ڈاکٹر کنول موہن چندوک جنہوں نے ایک Better service to community programme بنایا ہے کہ وہ بوڑھے اور بیمار لوگ جو زیادہ عمر کی وجہ سے اپنا خیال نہیں رکھ پاتے ان کے بچے بھی ان کا خیال نہیں رکھتے ان کے کوائف جمع کرکے ان کا خیال رکھا جائے ان پر توجہ دی جائے ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ انہوں نے جب اس آئیڈیے پر دوسرے لوگوں سے تعاون چاہا تو انہیں بڑا حوصلہ افزا جواب ملا وہ کہتیں ہیں کہ ہم بچوں کو بھی سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ بڑے ہو کر وہ آپ کا خیال رکھیں یہ تو کچھ معاشرتی ضرورت ہے جو ہر معاشرے میں دھڑکتے دل رکھنے والے لوگ اس ضرورت کو پورا کرنے میں سرگرم عمل ہیں ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ حکومت وقت بھی ان بزرگوں کا خیال رکھے اس سلسلے میں کچھ اصلاحی پروگرام رکھے جاسکتے ہیں ایک زمانے میں ٹی وی سے منو بھائی کا ایک ڈراما سونا چاندی آتا تھا یہ دونوں میاں بیوی مختلف خاندانوں میں گھریلو نوکری کرتے ہیں ایک گھر ایسا تھا جس میں ایک بزرگ بیمار پلنگ پر پڑے کھانستے رہتے تھے خوشحالی ان کے گھر میں تھی لیکن بیٹے اور بہو ان بزرگ کا زیادہ خیال نہیں رکھتے تھے ایک دن ان کا انتقال ہوگیا اس کے بعد ان کے گھر میں تو جیسے پریشانیوں اور آزمائشوں نے ڈیرے ڈال دیے ہوں پھر ایک دن ان کو کہنا پڑگیا کہ جب تک والد صاحب حیات تھے انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہم نے ان کی زندگی میں ان کی کیئر نہیں کی آج ہمیں یہ پریشانیاں لاحق ہو گئیں جیسے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ گھر میں بڑے بوڑھے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے وہ پرانا درخت جو اگر پھل دینا چھوڑ بھی دے تو کم از کم سایہ تو فراہم کرتا رہتا ہے۔ ہماری حکومت یا وہ جماعتیں جن کی حکومت آنے والی ہے وہ اس حوالے سے تفصیلات طے کرسکتے ہیں میری رائے ہے کہ ہر جماعت اپنے یہاں اس موضوع پر کام کرنے کے لیے تجربہ کار اور جہاندیدہ افراد کی کمیٹی بنائیں جو اس حوالے اپنی سفارشات بنا کر حکومت وقت کو دے آپ یعنی حکومتیں اپنے بزرگوں کا خیال رکھیں تواللہ تعالیٰ آپ کا خیال رکھیں گے۔