ووٹ دو میزان کو۔۔ بنالو پاکستان کو

387

ووٹ دو میزان کو۔۔ بنالو پاکستان کو، اس کو آپ جماعت اسلامی کا اس طرح کا بیانیہ نہ سمجھیں جس طرح اور جماعتوں نے پیش کیا ہے اس کو آپ صرف ہمارے مضمون کا عنوان سمجھیں، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے جو بیانیے بنائے ہیں وہ روزآنہ ایک صفحے کے اشتہارات میں لوگوں کو رٹانے کی کوشش کررہے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ اور پیپلز پارٹی کا بیانیہ ہے ’’چنو نئی سوچ کو‘‘ پہلے بیانیے کا سادا سا مطلب یہ کہ نواز شریف کو وزیراعظم بنا دو اور دوسرے بیانیے کا مطلب ہے کہ نئی سوچ کے حامل نوجوان بلاول زرداری کو ملک کا وزیر اعظم بنادو۔ اب یہ تو پاکستان کے عوام الیکشن والے دن فیصلہ کریں گے کہ وہ کس کے بیانیے کو قبول کرتے ہیں یا کوئی تیسرا آپشن ان کے ذہنوں میں ہے وہ تیسرا متبادل کیا ہے، اسی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے اگر عدالتوں کا انصاف نہ بھی کہا جائے تو بھی اس کو قدرت کا انصاف کہا جا سکتا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں ایک متبادل تحریک انصاف بھی ہے اور مہینوں پہلے سے ہم یہ پڑھ اور دیکھ رہے تھے اس کی مقبولیت سب سے زیادہ تھی لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی آتی تھی کہ اس کی قبولیت سب سے کم ہے۔ کل ایک شادی کی تقریب میں میں نے اپنے تین رشتہ داروں سے جب یہ کہا کہ آ پ انتخاب میں ترازو کو ووٹ دیں تو دو نے وعدہ کرلیا کہ وہ ترازو ہی کو ووٹ دیں گے حالانکہ یہ دونوں پہلے ہر انتخاب میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن تیسرے ساتھی نے کہا کہ نہیں جاوید بھائی ہم تو پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے جبکہ وہ نسبتاً تعلیم یافتہ فرد تھے اور حال ہی میں سرکاری محکمے سے گریڈ18سے ریٹائر ہوئے ہیں میں نے جب وجہ پوچھی تو انہوں نے تین وجوہات بتائیں ایک تو یہ کہ ہمارے کلفٹن کے علاقے میں پی ٹی آئی کا بہت زور ہے دوسرے یہ کہ اب عمران خان ہماری ضد بنتے جارہے ہیں تیسرے یہ کہ تحریک انصاف کا پورے ملک میں زور ہے جبکہ جماعت اسلامی کی کراچی میں تو جیتنے کی امید ہے لیکن پورے ملک میں یہ دیگر جماعتوں کے ہم پلہ بھی نہیں ہے۔

ہمارے یہاں انتخابات کے نتائج تین مرحلوں سے گزر کر فائنل ہوتے ہیں ایک گنتی تو پولنگ والے دن پریزائیڈنگ آفیسر پولنگ ایجنٹوں کے سامنے کرتا ہے اور وہی نتیجہ باہر آتا ہے اور جیتنے والے اپنی فتح کا جلوس بھی نکال لیتے ہیں لیکن ایک گنتی کہیں اور ہوتی ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے سب کو معلوم ہے اس میں کچھ نتائج تبدیل ہو جاتے ہیں ایک تیسرا نتیجہ وہ ہوتا ہے جس کا الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے مجھے ایک مثال یاد آئی کہ 1970 کے الیکشن میں حیدرآباد سے جماعت اسلامی کے وصی مظہر ندوی پوری رات بھاری اکثریت سے جیتتے رہے لیکن 8دسمبر کی صبح وہ ہار گئے، اسی طرح اس الیکشن میں ایک نتیجہ تو 8فروری کی شام کو آئے گا ایک نتیجہ 9فروری کی شام کو آئے گا یہ دونوں غیر سرکاری نتائج ہوں گے اور تیسرا فائنل نتیجہ الیکشن کمیشن کے سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے آ ئے گا، اب جس کو اعتراض ہو وہ الیکشن ٹریبونل میں چلا جائے جہاں کئی برسوں بعد فیصلہ ہوتا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ جس طرح الیکشن کمیشن نے یہ قانون پاس کیا ہے کہ اگر کسی نشست میں ہار جیت میں فرق 5000 ووٹوں سے زیادہ کا ہوگا تو اس کی دوبارہ گنتی کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی اسی طرح الیکشن کمیشن کو یہ قانون بھی بنانا چاہیے کہ جو کیس ٹریبونل میں جائے اس کا فیصلہ تین ماہ کے اندر ہوجانا چاہیے یعنی کوئی مدت کا تعین ضرور کرلیا جائے۔

یہ جو تین بڑی جماعتیں مقابلے پر نظر آرہی ہیں یہ تینوں ملک میں برسراقتدار رہ چکی ہیں ن لیگ اور پی پی پی نے تو پندرہ پندرہ برسوں تک حکمرانی کی ہے اور تحریک انصاف ساڑھے تین سال حکومت میں رہی ان تینوں کی کارکردگی یہ ہے کہ ان کے ادوار میں بھی مہنگائی ہوتی رہی لیکن یہ الزام ایک دوسرے پر دھرتی رہی ہیں، آخر میں سولہ ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت نے تو مہنگائی کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ پی ڈی ایم میں تو ن لیگ پی پی پی اور جے یو آئی تینوں بڑی پارٹیاں شامل تھیں اس لیے آج ہمارا ملک قرضوں کی جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے وہ ان ہی تینوں جماعتوں کی وجہ سے ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ان ہی جماعتوں کو دوبارہ لانا چاہتے ہیں یعنی ہوئے بیمار جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک بڑی اچھی تحریر دیکھی جس میں لکھا تھا کہ ہماری قوم بھی بڑی عجیب قوم ہے ووٹ تو دیتے ہیں ہم ابوجہل صفت لوگوں کو اور ان سے امید رکھتے ہیں سیدنا عمرؓ کے طرز حکومت کے مانند۔ ایک چینل لوگوں سے انٹرویو لے رہا تھا کہ آپ کس کو ووٹ دیں گے ایک نے جواب دیا ن لیگ کو پھر خود ہی کہا ارے بھئی کیا ہوا وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔

آج ایک پارٹی کہہ رہی کہ وہ تین سو یونٹ بجلی فری کر دے گی پانچ سال میں عوام کی تنخواہیں ڈبل کردے گی اور بھی اسی طرح کے وعدے ہیں لیکن ان سب وعدوں کے حصول کے لیے کوئی روڈمیپ نہیں دیا گیا ایک دوسری پارٹی کے سربراہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دور میں وہ روٹی جو اب پچیس روپے کی ہے چار روپے کی ملا کرتی تھی ہم آئیں گے تو چیزوں کی قیمتوں کو اسی سطح پر لے آئیں گے جو ہمارے دور میں تھیں یہ بالکل ناممکن ہے دوسرے انہوں نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ تو عمران خان نہیں پورا کرسکے تو اب دوسری پارٹیاں کیسے کریں گی۔

اگر ہم ملک کی بدحالی کی وجوہات جاننا چاہیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس معاشی ابتری کی سب سے اہم وجہ ملک کی میگا کرپشن ہے جس کی وجہ سے ہم اہم اداروں کو بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں اب سے پچیس سال پہلے تک مختلف اداروں میں کرپشن کی جو فیگرز آتی تھیں وہ لاکھوں یا کہیں کہیں کروڑوں کی بات آتی تھی اب تو کسی بھی ادارے میں اربوں اور کھربوں سے کم کی بات نہیں ہوتی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو پارٹیاں اس کرپشن کی ذمے دار ہیں وہ کیسے اس کو ختم کریں گی؟ کیا انہوں نے ایمان داروں کی ٹیم کو انتخاب میں اتارا ہے ایک ٹی وی پروگرام میں بتارہے تھے ایک امیدوار نے ن لیگ سے ایک ٹکٹ 25کروڑ میں خریدا ہے اب بتائیے جس نے اتنے مہنگے داموں میں ٹکٹ حاصل کیا ہے تو وہ کروڑوں الیکشن مہم میں لگائے گا جیتنے کے بعد وہ اپنی آخرت سنوارے گا یا دنیا بنائے گا۔

جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے جماعت نے اس انتخاب میں جس ٹیم کو اتارا ہے وہ نہ صرف ایمان دار اور دیانت دار لوگ ہیں بلکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے شعبوں کے ماہرین ہیں۔ جماعت اپنے امیدواروں سے ٹکٹ کا کوئی پیسہ لینا تو درکنار ان کی انتخابی مہم بھی اپنے خرچ پر چلاتی ہے۔ پھر جب جہاں جماعت اسلامی کو اقتدار کا موقع ملا اس نے اپنی کارکردگی سے اپنا لوہا منوایا ہے جب جماعت کو کے پی کے میں حکومت میں شرکت کا موقع ملا تو جو وزارتیں جماعت کے لوگوں کو ملی تھیں ان کی کارکردگی سے آج بھی صوبے کے عوام اچھی طرح واقف ہیں اسی طرح کراچی میں میئر افغانی دو مرتبہ میئر رہے اور ایک دفعہ نعمت اللہ خان ناظم سٹی بنے تو ان دونوں بزرگوں کا دامن کسی بھی قسم کے کرپشن کے الزام سے پاک تھا پھر انہوں نے کراچی شہر میں ترقیاتی کاموں کے جال پھیلا دیے تھے اسی لیے پچھلے سال جنوری میں بلدیاتی انتخاب میں کراچی کے شہریوں نے بہت بڑی تعداد میں جماعت کے یو سی چیئرمینوں اور کونسلروں کو کامیاب کرایا ہے ایک معروف صحافی کی رائے تھی کہ اگر بلدیاتی انتخاب میں دھاندلی نہ ہوتی تو 140 یو سی چیئرمین کامیاب ہوتے اس مرتبہ بھی کئی قابل اعتماد سروے کی روشنی میں کراچی میں جماعت اسلامی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آرہی ہے پورے ملک میں بھی اسی طرح کی اطلاعات ہیں جماعت اسلامی کے لوگ اگر بڑی تعداد میں ملک میں کامیاب ہوگئے تو ملک کی اقتصادی صورتحال بہت بہتر ہوجانے کی قوی امید ہے اسی لیے ہم کہتے ہیں ووٹ دو میزان کو بنالو پاکستان کو۔