اولاد لیڈر اور کارکن محض ووٹرز

397

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کچھ اس قدر پر کشش نہیں کہ اس پر رشک کیا جاسکے، کتنا عرصہ ہوا کہ جب اولاد ہی لیڈر بن سکتی ہے اور عام کارکن تمام عمر ووٹر ہی رہے گا، یہ دردیاں بچھائے گا، جلسے کے لیے کرسیاں ڈھوئے گا، اسٹیج پر لگی کرسیوں کی ڈسٹنگ ہی کرتا رہے گا۔ 1970 کے انتخابات میں حصہ لینے والی نسل کے بزرگ ایوب خان دور میں بی ڈی ممبر رہے، اس اسمبلی کے دوران پشاور میں ایک واقعہ تو حیات شیر پائو بم دھماکے میں شہید ہوگئے بعد میں ان کی جگہ آفتاب شیرپائو نے لی۔ 1977 میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورت حال تھی کہ جس گھرانے کے بزرگ سیاست میں رہے انہی کی اولاد ان کے بعد سیاست میں آئی، اس اسمبلی میں جس کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے۔ اس میں کیپٹن نثار اکبر بھی شامل تھے، جن کے بزرگ قائد اعظم کے ساتھ تھے اور قائد اعظم جب لائل پور( فیصل آباد) گئے تو انہی کے گھر قیام کیا تھا۔ یہ تو ایک مثال ہے اسی اسمبلی میں میاں عطاء اللہ بھی تھے جن کے والد میاں عبداللہ مسلم لیگی تھے اور قائد اعظم کے ساتھ تھے، فیصل آباد میں ان کے نام پر عبداللہ پور ایک رہائشی محلہ ہے۔ اس کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو برادری ازم کی بنیاد پر امیدوار میدان میں آئے اسی اسمبلی میں پہلی بار طلبہ راہنماء بھی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جن میں لیاقت بلوچ، حافظ سلمان بٹ، جاوید ہاشمی، شیخ رشید، پیر صابر شاہ، ظفر نوری، حاجی حنیف طیب نمایاں نام ہیں۔ اس کے بعد بھی جو بھی انتخابات ہوئے ان میں حصہ لینے والوں میں ملک کے روایتی اور با اثر سیاسی گھرانوں کی چھاپ ہمیشہ سے ہی بہت نمایاں رہی ہے۔ اب ایک امیدوار کے طور پر ان انتہائی مہنگے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے عام نظریاتی ورکروں کے لیے انتخابی سیاست میں آگے آنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اور مہنگا بھی۔

اس مرتبہ بھی بیش تر بڑی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے رشتہ داروں یا انتہائی مالدار افراد کو پارٹی کارکنوں پر ترجیح دی ہے۔ روایتی گھرانوں کے افراد کے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچنے سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو تقویت ملے گی اور عام آدمی کی فلاح کے لیے کوئی بڑی اور بنیادی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے موجودہ انتخابی امیدواروں کی فہرست میں موروثی سیاست کی مثالیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں صرف لاہور کو دیکھ لیں یہاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں شہباز شریف قصور سے اور نواز شریف مانسہرہ سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مریم بھی کئی حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ عابد شیر علی فیصل آباد سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اگر صرف ایک فیملی دس سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑے گی تو غریب کارکن کی باری آئے گی؟ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے جن امیدواروں کا اعلان کیا ہے ان میں کوئی تین درجن کے قریب امیدوار ایسے ہیں، جو انتہائی قریبی خونی رشتے رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے فیصل ایوب صوبائی اسمبلی سے ٹکٹ ملا ہے۔ لاہور سے افضل کھوکھر قومی اسمبلی اور ان کے بھتیجے عرفان شفیع کھوکھر (ن) لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے سابق وزیر اویس لغاری اور ان کے بیٹے عمار لغاری کو راجن پور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا ہے۔ لاہور سے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق قومی اور ان کے بھائی سلمان رفیق صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بہاولپور سے اقبال چنڑ قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے ظہیر اقبال چنڑ صوبائی اسمبلی سے امیدوار ہیں۔ شیخوپورہ سے سابق وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف قومی اسمبلی اور ان کے بھائی میاں امجد لطیف صوبائی اسمبلی۔ اسی طرح فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ خان قومی اور ان کے داماد رانا احمد شہریار کو صوبائی اسمبلی سے ٹکٹ ملا ہے۔

یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ آصف علی زرداری نواب شاہ کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اور ان کے بیٹے اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری لاڑکانہ اور لاہور سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذار پیچوہو نواب شاہ اور فریال تالپور لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار ہیں۔ فریال تالپور کے شوہر میر منور تالپور میر پور خاص میں قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں جنوبی پنجاب میں دریشک فیملی کے تین جبکہ مزاری خاندان کے چار افراد بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو اور بیٹے زین قریشی امیدوار ہیں۔ یوسف رضا گیلانی خود بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے بیٹے بھی میدان میں ہیں۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے اپنے علاوہ اپنے دو بیٹوں کو الیکشن میں اتارا ہے۔ گجرات کی چودھری فیملی بھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ انتخابات میں شریک ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی اہلیہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ سندھ میں گھوٹکی کا مہر خاندان، ٹھٹھہ کی شیرازی فیملی، سکھر میں خورشید شاہ کا خاندان، خیرپور سے قائم علی شاہ کا خاندان، بدین سے ذوالفقار مرزا کا خاندان، بہاولپور سے طارق بشیر چیمہ اور قصور کے رانا خاندان نے بھی اپنے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔

سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی کمی ان کے خیال میں جب تک پاکستان کے معاشرے میں جمہوری کلچر نہیں آتا اور جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری اقدار کو پروان نہیں چڑھاتیں اس وقت تک سیاسی فیصلے بھی پارٹی سربراہوں کی پسند ناپسند ہی سے ہوں گے۔ با اثر روایتی خاندانوں نے اپنی سیاست کو ’انسٹی ٹیوشنلائز‘ کر لیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر کسی کو لفظ کا معنی معلوم ہے تو ہمیں بھی بتا دے۔