اس دلخراش سانحے کا ذمے دار کون ہے

440

گزشتہ پیر کی رات جب ٹی وی پر یہ خبر سننے کو ملی کہ ائر پورٹ تھانے کی حدود میں فلک ناز اپارٹمنٹ کے ایک فلیٹ میں ایک شخص نے اپنی بیوی اور تین بچوں کے سر پر گولی مار کر خود بھی گلے میں رسی کا پھندا لگا کر خود کشی کرلی یہ خبر دیکھتے ہی شدید غم کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑ گئی ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارا اپنا ہی کوئی بڑا نقصان ہو گیا ہے پھر میں سوچنے لگا کہ اس المناک سانحے کا ذمے دار کون ہے؟ کیا وہ خود ہے؟ کیا ذمے دار حکومت ہے؟ سیاسی جماعتیں ہیں یا اس کے محلے والے؟ اس کے قریبی رشتہ دار یا ہم سب؟ نہیں تو میں خود بھی اس کا ذمے دار ہو سکتا ہوں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا کہ اسلام کا فلاہی نظام آئے گا تو اس ملک میں عدل و انصاف کا بول بولا ہو،گو عام لوگوں کو کھانے کو روٹی پہننے کو کپڑا رہنے کو گھر ملے گا بے روزگاروں کو بیروزگاری الائونس ملے گا تو میں خود سے یہ سوال کرتا ہوں کہ میں نے ملک میں اسلامی انقلاب کے لیے کیا جدجہد کی اگر اپنی بساط بھر کوششیں کرلی اور اب بھی کررہے ہیں تو میں کسی حد تک بری الذمہ ہو سکتا ہوں اگر ہم ایسا نہیں کررہے تو ہم سب پاکستانی بھی اس سانحے کے ذمے دار ہیں۔ اب آجاتے ہیں حکومت کی طرف تو آپ یہ دیکھیے کہ آج مغرب میں یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں عام لوگوں کی عزت آبرو کی حفاظت کے ساتھ ان کے روٹی کپڑا مکان کی ذمے داری وہاں کی ریاستیں خود لیتی ہیں بلکہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ممالک میں تو اس کا بہت زیادہ نہ صرف خیال رکھا جاتا ہے بلکہ ان حکومتوں کی ساری توجہ اور ترجیحات ان ہی امور کی انجام دہی میں صرف ہوتی ہیں کئی اسلامی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے یہاں کی حکومتیں روزگار کا تحفظ فراہم کرتی ہیں اور بے روزگار شخص کو بے روزگاری الائونس اسی لیے دیا جاتا ہے کہ وہ بھوک سے نہ مرنے پائے لیکن ہمارے ملک میں اسلام کی تعلیمات کو سائیڈلائن کردیا جاتا ہے جب کہ ہم اپنی تقریروں اور وعظوں میں خلیفہ دوم سیدنا عمرؓ کہ اس قول کا اکثر ذکر کرتے ہیں کہ اگر فرات کے نہر کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر اس کا ذمے دار ہوگا۔

حکومت کے بعد میں نے سیاسی جماعتوں کی بات کی ہے اس میں سمجھتا ہوں کہ ہماری وہ سیاسی جماعتیں زیادہ ذمے دار ہیں جو کئی کئی بار حکومتوں میں رہ چکی ہیں ان سیاسی جماعتوں نے عوام کے پیٹ پر لات مار کر باہر کے ملکوں میں اپنی دولت اور جائداد کی ایک امپائر کھڑی کردی ہے، انہوں نے پورے ملک کو بیرونی قرضوں کی دلدل میں اس بری طرح پھنسا دیا ہے کہ اس دلدل سے مستقبل بعید میں بھی نکلنے کے آثار نظر نہیں آتے ہمارے ملک کا آدھا بجٹ غیر ترقیاتی اخراجات میں اور آدھا بجٹ قرضوں کے سود کی ادائیگی میں نکل جاتاہے۔ افراط زر اور اقتصادی بحران کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے یہ شخص بھی جس نے خود سمیت پورے خاندان کو قتل کیا گارمنٹ کا کاروبار کرتا تھا چار مہینوں سے کام بالکل بند تھا کہ فاقوں کی نوبت آگئی اسی وجہ سے شاید وہ اپنے اور غیروں کا مقروض بھی ہو گیا ہو بہرحال جو سیاسی جماعتیں پچھلے بیس برسوں میں حکومتوں میں رہی ہیں اور جن جماعتوں نے ان کے ساتھ اقتدار میں شراکت کی وہ سب اس سانحے کے ذمے دار ہیں یہ صورتحال ویسے تو پورے ملک کی لیکن صوبہ سندھ میں پچھلے پندرہ برسوں سے جو پارٹی برسراقتدار رہی ہے اس نے سوائے لوٹ مار کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کیا ہی نہیں اس پارٹی نے کچھ آٹھویں ترمیم کے ذریعے وفاق کے پیسے صوبوں کی طرف منتقل کرائے لیکن اس کے علاوہ کراچی کے اہم اداروں میں پارٹی کے کرتا دھرتا نے اپنے فرنٹ مینوں کو بٹھا کر لوٹ مار کا بازار گرم کیا ایک ہی ادارے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی مثال لے لیں پہلے اس کو سندھ کنٹرول اتھارٹی بنایا پھر اس میں اپنے ایک فرنٹ میں کو سربراہ بنایا جس کے بارے اس زمانے یہ زبان زد عام تھی یہ شخص ایک کروڑ روپے روز رشوت سے کما رہا ہے، جب اس کے خلاف انکوائری کا آغاز ہوا تو اسے خاموشی سے باہر بھگا دیا گیا۔

ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ احسن رضا کا لہو پی پی پی کے ہاتھوں پر ہے، ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کہ پیپلز پارٹی کی متعصب حکمران نے گزشتہ 15سال میں شہری سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کے حقوق کو سلب کرلیا پہلے کوٹا سسٹم کا نفاذ کرکے روزگار کو 2حصوں میں بانٹ دیا اس کے بعد شہری سندھ کے کوٹے کو بھی جعلی ڈومیسائل کے ذریعے جعلی بھرتیاں کرکے شہر کراچی کے عوام کا روزگار چھین لیا، بے روزگاری کے سبب شہری سندھ کے نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں گورنمنٹ سیکٹر ہو یا پرائیویٹ سیکٹر شہری سندھ کے عوام کے لیے کہیں روزگار باقی نہیں بچابجلی اور گیس کے بحران اس حد تک پیدا کردیے گئے ہیں کہ انڈسٹریز بد حالی کا شکار ہو کر بند ہو رہی ہیں۔ احسن رضا سمیت حالات سے تنگ آکر اس طرح کے قدم اٹھانے والے تمام افراد کا لہو پیپلز پارٹی کے ہاتھوں پر ہے، اس بیان پر ہمیں بس اتنا ہی کہنا ہے کہ پچھلے تیس برسوں میں آپ ہی مرکز اور صوبے میں بننے والی حکومتوں میں شریک رہے ہیں آپ نے کیوں نہیں شہری سندھ کے عوام کے مسائل حل کرائے۔

اس حادثے کی ذمے داری اس کے رشتہ داروں پر بھی آتی ہے کچھ تو وہیں جو اسی فلک ناز فلیٹ میں رہتے ہیں آپؐ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر تم چاہتے ہو تمہاری عمر لمبی ہو اور یہ کہ تمہارا دسترخوان وسیع ہو تو صلہ رحمی کیا کرو ہمارے یہاں جب سے خاندانی نظام زوال پزیر ہوا ہے ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں اگر رشتہ دار ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس رکھیں اور جو بھائی یا قریبی رشتے دار معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں ان کا خصوصی خیال رکھیں اور ان کی پریشانیوں میں ان کی مدد کریں اگر ہم سب اپنے خاندانوں میں اس طرح کے اخوت کا احساس بیدار کریں گے تو ایسے واقعات کم ہو سکتے ہیں۔ ایک متقی اور خدا ترس تاجر نے اپنے بیٹے کی اس طرح تربیت کی وہ اسے الماری کے شیشے کے سامنے لے گیا اور پوچھا اس میں کون نظر آرہا ہے اس نے جواب دیا یہ تو میں خود ہوں پھر وہ اس کو کھڑکی کے شیشے کے پاس لے گیا اور پوچھا اس میں کیا نظر آرہا ہے اس نے کہا اس میں تو باہر سارے لوگ آتے جاتے چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں باپ نے کہا بیٹا بس یہ سمجھو کہ جب انسان اپنی شخصیت پر خود غرضی اور لالچ کا ملمع چڑھا لیتا ہے تو اسے اپنے سوا کوئی نظر نہیں آتا اور پھر جب وہ اپنے آپ کو شیشے کی طرح صاف رکھتا ہے تو اسے دنیا کے لوگ نظر بھی آتے ہیں اور ان کے دکھ درد بھی محسوس کرتا ہے۔

اس سانحے کے ایک ذمے داری اس کے پڑوسیوں پر بھی آتی ہے اسلام میں تو پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اتنی ہدایات آئیں ہیں کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے کہا کہ مجھے یہ لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی کوئی ہدایت نہ آجائے، اس حوالے سے مجھے تاریخ اسلامی میں ایک بزرگ (نام یاد نہیں ہے) کا واقعہ یاد آگیا کہ انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے ایک پڑوسی کے گھر میں تین دن سے فاقہ ہے اور وہ مری ہوئی مرغی کھانے پر مجبور ہوگئے تو اس زمانے کے اس مشہور متقی پرہیزگار بزرگ نے اپنے حج کے سلسلے میں جمع کی ہوئی رقم اس پڑوسی کو دے دی کہ وہ اپنی معاشی ضرورت پوری کرلے اور اس سال وہ حج پر نہیں گئے۔ کچھ بزرگوں نے دوران حج یہ بات سنی جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ فلاں بزرگ (جنہوں نے اپنی حج کی رقم پڑوسی کو دے دی تھی) کی وجہ سے سب کا حج قبول ہوگیا یہ اپنے زمانے کے معروف بزرگ تھے لوگوں نے ان کی تلاش شروع کردی نہیں ملے واپسی میں کچھ لوگ ان کے گھر گئے تو انہوں نے اپنے حج پر نہ جانے کی وجہ لوگوں کو بتادی، ایک پڑوسی کی بھوک کا خیال کرنے پر اتنا بڑا انعام۔ کاش ہم لوگ بھی اگر پڑوس کی اہمیت سے واقف ہوجائیں تو بہت اچھا ہے۔ بہر حال ان سب کے باوجود میری رائے ہے کہ اس سانحے کا ذمہ دار ہمارا پورا معاشرہ ہے۔