جماعت اسلامی اور انتخابات 2024

484

انتخابات سر پر ہیں۔ اگرچہ اب بھی بعض لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انتخابات 8 فروری کو نہیں ہوں گے اور معینہ یا غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی ہوجائیں گے اس سلسلے میں سینیٹ میں دو قراردادیں بھی پیش ہوچکی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ امن وامان کی مخدوش صورت حال، خراب موسمی حالات اور سیکورٹی کے مسائل کے سبب انتخابات مقررہ تاریخ کو نہیں ہوسکتے۔ اس لیے انہیں مناسب وقت تک ملتوی کردیا جائے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ان قراردادوں کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات مقررہ تاریخ کو ہی کرانے کے اعلان کا اعادہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے تمام انتظامات مکمل ہیں اور بیلٹ پیپرز چھپائی کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کوئی انہونی نہ ہوئی تو 8 فروری کو عوام لازماً اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ اس حوالے سے انتخابی مہم نے بھی زور پکڑ لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اپنی کمین گاہ سے نکل آئی ہے اور جلسے کررہی ہے۔ اس نے بہت تاخیر سے اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے، شاید اسے یقین نہیں تھا کہ انتخابات مقررہ تاریخ کو ہوجائیں گے۔ اس لیے وہ اپنا انتخابی منشور بھی وقت پر پیش نہیں کرسکی۔ تاہم میاں نواز شریف اور مریم نواز جلسوں میں گرج برس رہے ہیں اور عوام کو وہ دن یاد دلارہے ہیں جب ان کی حکومت تھی اور نان چار روپے میں ملتا تھا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ شہباز شریف کی سولہ ماہ کی عبوری حکومت تھی تو ان ہی کی تھی جسے چلانے کے لیے انہوں نے اسحاق ڈار کو لندن سے وزیر خزانہ بنا کر بھیجا تھا۔ جس نے آتے ہی معیشت میں وہ تباہی مچائی تھی کہ ڈالر تین سو روپے اور نان پچیس روپے کا ہوگیا تھا۔ اب وہ پھر دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے کررہے ہیں۔ ان وعدوں کا یہ حال ہے کہ

ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

عوام بھی جانتے ہیں کہ ان وعدوں کی حقیقت کیا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے اپنے پچاس برس پرانے نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کو پھر اپنے انتخابی منشور کی بنیاد بنایا ہے اور بلاول زرداری جگہ جگہ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہمیں ووٹ دو ہم یہ وعدہ پورا کرکے رہیں گے۔ اس وعدے کا جو حشر پیپلز پارٹی نے سندھ میں کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گھر کے ایک بھیدی نے انکشاف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ دور حکومت میں ہر سال ایک سو سترہ ارب کی کرپشن ہوتی تھی اور یہ رقم بیرون ملک بھیجی جاتی تھی۔ بلاول زرداری وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں اور سندھ میں اپنی حکومت کے اس کارنامے کو پیش کرکے عوام سے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ رہی جمعیت علمائے اسلام تو اس کے محترم قائد مولانا فضل الرحمن کو ابھی تک یقین نہیں آیا کہ 8 فروری کو انتخابات ہوں گے۔ وہ التوا کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں اس لیے انہوں نے اپنی پارٹی کا نہ کوئی انتخابی منشور پیش کیا ہے نہ کوئی انتخابی مہم چلائی ہے۔ انہیں اپنے آبائی حلقے سے جیتنے کی بھی امید نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے بہت دور جا کر پشین سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ تحریک انصاف کا تو ویسے ہی صفایا کردیا گیا ہے۔ اس کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ ہم عدالت عظمیٰلیول پلینگ فیلڈ لینے گئے تھے لیکن اس نے تو ہم سے فیلڈ ہی چھین لی ہے۔ تحریک انصاف کے بانی سمیت اس کے تمام چھوٹے بڑے لیڈر گرفتار ہیں یا اشتہاری قرار دیے جاچکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ انتخابی میدان میں موجود ہے اور اپنی انڈر 18 ٹیم کے ساتھ انتخابات لڑ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم چلارہی ہیں لیکن تحریک انصاف کو انتخابی مہم چلانے کی بھی اجازت نہیں ہے وہ اگر کوئی جلسہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے۔ حد یہ کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو فلسطین کی حمایت میں بھی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ 9 مئی کا بھوت ان کا ہر جگہ تعاقب کررہا ہے۔

اس سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جو نہایت پُروقار انداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہی ہے۔ اس نے اپنا انتخابی منشور بھی انتخابات کا شیڈول آنے سے بہت پہلے عوام کے سامنے پیش کردیا تھا اور اس پر بحث و تنقید کا موقع فراہم کیا تھا۔ میڈیا میں جماعت اسلامی کو اس لیے پزیرائی حاصل نہیں ہے کہ ہر میڈیا گروپ اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں نے انہیں قابو کر رکھا ہے۔ انہیں پاکستان میں جمہوریت اور نفاذ اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کرکے اپنا سودا بیچنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے عوام سے براہ راست رابطے کو اہمیت دے رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے کررہے ہیں جنہیں میڈیا میں چھوٹا کرکے دکھایا جارہا ہے۔ تاہم گیلپ نے اپنے سروے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سراج الحق قومی سیاست میں تیسرے بڑے سیاسی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ ظاہر ہے اس سروے میں جماعت اسلامی کو تیسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔ سیاسی تعصبات اپنی جگہ، عوام کی اکثریت بہرکیف اب یہ سوچنے پر مجبور ہورہی ہے کہ وہ کب تک بیوقوف بنتے رہیں گے۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی ان کے سامنے ہے جو طویل عرصے تک اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ ان کے لیڈروں نے اپنے گھروں میں دولت کے انبار لگالیے، اندرون و بیرونی ملک وسیع و عریض جائدادوں کے مالک بن گئے، لیکن ملک کو کنگال کردیا۔ غربت، افلاس، مہنگائی، غیر ملکی قرضے اور آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط عوام کا مقدر بن کر رہ گئیں۔ جماعت اسلامی اپنی انتخابی مہم میں یہ ساری باتیں عوام کے سامنے رکھ رہی ہے اور انہیں سوچنے کا موقع فراہم کررہی ہے۔ اس کی کسی خاص سیاسی جماعت یا مقتدرہ سے لڑائی نہیں، بلکہ کرپٹ اور استحصالی نظام سے لڑائی ہے۔ غیر جمہوری رویوں اور آمرانہ، ہتھکنڈوں سے لڑائی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس لڑائی میں کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے، عوام کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اس جدوجہد میں اپنی جان کھپا رہی ہے۔ جیت گئی تو یہ عوام کی جیت ہوگی، ہار گئی تو یہی سمجھا جائے گا کہ استحصالی اور غیر جمہوری قوتوں نے عوام کو شکست دے دی ہے۔ (جاری ہے)