نبھا کیوں نہ ہوسکا

549

تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھن گیا‘ وجہ یہ بنی کہ اس نے انٹرا پارٹی انتخابات اپنے آئین کے مطابق نہیں کرائے‘ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کی یہ کہانی نئی نہیں‘ ماضی میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ تفصیلات اس کی اگر کوئی چاہے تو جسٹس (ر) وجیہ الدین سے مل سکتی ہیں‘ یہ کوئی 2015 کی کہانی ہے انٹرا پارٹی انتخابات میں بے قاعدگی سامنے آئی، جسٹس (ر) وجیہ الدین کی سربراہی میں انتخابی انتخابی عذر داری کا ٹربیونل بنایا گیا‘ انہوں کیا فائنڈنگ دی اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے، صرف پرویز خٹک، اسد قیصر اور عارف علوی سے ہی پوچھ لیا جائے، اس ٹربیونل نے کیا سفارشات دیں اور کس کس کو مورد الزام ٹھیرایا اور کسے معطل کیا؟ غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے مگر ایک بار، بار بار وہی غلطی دہرائی جائے تو یہ غلطی نہیں بلکہ اس انسان کی نیت ہی سمجھی جاتی ہے۔ یہی نیت اگر خرابی کی معراج پر ہو تو اسے ہی بدنیتی کہا جاتا ہے، بہر حال اب قاری ہی فیصلہ کریں کہ تحریک انصاف کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات میں غلطی اور بدنیتی میں کتنا فرق رہ گیا ہے۔ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ یہ غلطی جب الیکشن کمیشن نے پکڑ لی تو کہا گیا کہ تحریک انصاف پلان بی پر کام کرے گی، پلان بی سامنے آیا، پلان سی آٹھ فروری کو سامنے آئے گا۔ پلان بی یہ تھا کہ ایک ایسی سیاسی جماعت سے سمجھوتا سامنے آگیا کہ معاملہ بلا اور بلے باز کے درمیان جا لٹکا، پھر یہ معاہدہ بھی ’’خلع یا طلاق‘‘ کی نذر ہوا‘ تحریک انصاف بے چاری پہلے ہی عدت پوری کیے بغیر نکاح کیس بھی بھگت رہی ہے۔ اب اسے اپنا سفر بلا اور بلے باز کے بغیر ہی آگے بڑھانا ہوگا۔

الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے‘ جب پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ لایا گیا تو تحریک انصاف نے خوش آمدید کہا کہ اب موروثی سیاست ختم ہوگی، یہ کیا مذاق ہے پارٹی سربراہ ہی بار بار صدر منتخب ہوتا چلا جائے لیکن جب خود اپنی باری آئی تو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے جو مشق دہرائی گئی اس بارے میں جسٹس وجیہ الدین احمد ہی کچھ بتائیں تو بتائیں‘ ہماری کیا مجال؟ ہم تو اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جو انتخابی نشان دیتے ہیں وہی نام ونشان بھی مٹا سکتے ہیں لہٰذا ہر سیاسی جماعت قانون، آئین اور قاعدے کی پابندی کرے تو یہی ان کے حق میں بہتر ہے لیکن یہاں سبق کون سیکھتا ہے؟ سب یہی کہتے ہیں کہ ’’آساں نہی مرنا گور پیا کوئی ہور‘‘۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا‘ اے این پی کا معاملہ بھی یہاں پہنچا تھا مگر اسے جرمانہ کرکے انتخابی نشان دینے کا فیصلہ ہوا‘ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں سقم ہیں، اس نے انتخابی نشان اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم تو دے دیا مگر یہ ڈکلیریشن نہیں دیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست تھے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے 22دسمبر کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوئے اِسی لیے تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان ’’بلا‘‘ کی حقدار نہیں رہی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے 14 ارکان نے انٹراپارٹی انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں درخواستیں جمع کروائی تھیں، الیکشن کمیشن نے 2021ء میں تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا کہا تھا، اُس وقت وفاق اور صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت تھی چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دیگر 13 سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی اِسی تناظر میں کارروائی کی کیونکہ وہ بھی بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہیں الیکشن کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں پی ٹی آئی نے جو انٹرا پارٹی انتخابات کروائے اْس کے بارے میں پہلے کہا گیا کہ یہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہوں گے اور پھر اْنہیں پشاور کے نواحی علاقے چمکنی کے ایک گاؤں میں منتقل کر دیا گیا ساتھ ہی ان انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد کو کاغذاتِ نامزدگی بھی نہیں دیے گئے۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کو پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، ایک ہی معاملے کو دو عدالتوں میں کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ اِس کے علاوہ پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواستیں واپس نہیں لیں اور پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے جو درخواست دائر کی اْس میں بھی اِس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ایسا کوئی معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ مطلب یہ کہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے دو روز کئی گھنٹوں پر محیط طویل سماعتیں کیں جو ٹی وی پر براہِ راست نشر بھی ہوئیں۔ ہفتے کی صبح 10بجے سماعت شروع ہوئی اور شام سوا سات بجے تک جاری رہی پی ٹی آئی کے وکلا سے بہت سے سوالات پوچھے گئے، بیش تر کے جواب وہ دے نہ سکے اور جب معزز جج صاحبان نے بعض معاملات کی تصدیق کے لیے ثبوت مانگے تو وہ بھی اُن کے پاس نہ تھے۔ یہاں تک کہ جسٹس مسرت ہلالی صاحبہ کو یہ کہنا پڑا کہ پی ٹی آئی کاغذی کارروائی میں بہت کمزور ہے۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور کوئی بھی ادارہ اِس کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی والے کبھی لاہور ہائیکورٹ گئے تو کبھی پشاور ہائیکورٹ، انہوں نے اِس موقع پر نہ چاہتے ہوئے بھی ’’فورم شاپنگ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ہے کہ جب ایک جگہ سے ریلیف نہ ملے تو دوسری جگہ بھاگو۔

اِس سارے قصے میں خاص بات یہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں، جمہوریت مضبوط کرنے کی بات کرتی ہیں ان کی اپنی جماعت کے اندر جمہوریت کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے ملک کی لگ بھگ 75 سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی انتخابات کم بیش اِسی طرح ہوتے ہیں، اْن میں جمہوریت کہیں بھی نظر نہیں آتی لیکن پی ٹی آئی تو ان سب سے آگے نکل گئی، وہ یہ ثابت ہی نہیں کر سکی کہ اس نے انتخابات کرائے بھی ہیں۔ بہر حال اب فیصلہ آ چکا ہے، پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو چکی ہے، اب اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیں گے۔ انتخابی نشان بے شک کسی بھی سیاسی جماعت کی پہچان ہوتا ہے، بیش تر لوگ امیدوار کو نہیں جانتے بس نشان پر مہر لگاتے ہیں۔ اب اِس فیصلے کے حق میں بات کی جائے یا اِس پر تنقید کی جائے، یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی اپنی ہی کوتاہیاں اِس کو لے ڈوبی ہیں یا پھر یہ خود اعتمادی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اِس فیصلے سے ایک اور بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کس قدر اہمیت کے حامل ہیں، اِن میں شفافیت بھی ضروری ہے۔ یہ تصور بھی دم توڑ گیا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں الیکشن کمیشن کا کردار محدود ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کو توجہ دینی ہوگی، آئندہ آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانے ہوں گے ورنہ مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔