پاکستان کی ہر چیز کو جعلی بنانے والے

733

پاکستان اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام اور 20 ویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی ہر چیز بڑی تھی۔ پاکستان کا نظریہ بڑا تھا۔ پاکستان کی تاریخ بڑی تھی۔ پاکستان کی قیادت بڑی تھی۔ پاکستان کا نصب العین بڑا تھا مگر پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کی ہر چیز کو چھوٹا اور جعلی بنادیا۔
نظریے کی طاقت غیر معمولی ہوتی ہے۔ سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا مگر اس نظریے نے روس اور چین میں انقلاب برپا کردیے۔ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے روس ایک ناقابل ذکر ملک تھا مگر سوشلزم نے روس کو ایک انقلابی طاقت بنادیا۔ اسے سوویت یونین میں ڈھال دیا۔ اسے دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک سپر پاور بنادیا۔ نظریے کی طاقت نے روس میں صنعتی اور زرعی انقلاب برپا کردیا۔ نظریے کی طاقت نے ایک نیم خواندہ معاشرے کو سو فی صد خواندہ بنا دیا۔ سوشلسٹ روس میں ہر شخص برسرروزگار تھا۔ روس میں تعلیم اور صحت کی تمام سہولتیں مفت تھیں۔ روس میں کوئی بے گھر نہیں تھا۔ روس میں کوئی بھکاری نہیں تھا۔ روس میں کوئی جسم فروش عورت نہیں تھی۔ روس نے اپنے نظریے کی طاقت سے آدھی سے زیادہ دنیا میں سوشلسٹ انقلابات برپا کروائے۔ پورا مشرقی یورپ روس کے قبضے میں تھا۔ ہندوستان کی عظیم رہنما اور جدید بھارت کے بانی نہرو خود کو سوشلسٹ کہتے تھے۔ چین کی آبادی کا بڑا حصہ افیون کھایا کرتا تھا۔ چین میں غربت تھی۔ بیروزگاری تھی۔ چین میں کوئی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ چین کی زراعت پسماندہ تھی۔ مگر چین کے سوشلسٹ انقلاب نے چین کو دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک طاقت بنادیا۔ چین کے نظریے نے چین میں صنعتی اور زرعی انقلاب برپا کردیا۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ چین کے پاس تین ہزار ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ چین نے گزشتہ 40 سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ چین کی طاقت سے امریکا اور یورپ لرزہ براندام ہیں۔ چین امریکا کے لیے سوویت یونین سے بڑا خطرہ ہے۔ چین نے افریقا کو فتح کرلیا۔ ایشیا میں اس کے اثرات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس نے سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات میں نمایاں بہتری پیدا کردی ہے۔ اسرائیل کا نظریہ ایک سطح پر یہودیت اور دوسری سطح پر صہیونیت ہے۔ ان نظریات نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت بنادیا ہے۔ عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف دو بڑی جنگیں لڑی ہیں اور ان جنگوں میں عربوں کی مشترکہ فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ یورپ کا نظریہ سیکولر ازم ہے اور یورپ کا ہر بڑا دانش ور کہتا ہے کہ آج یورپ جو کچھ ہے سیکولرازم کی وجہ سے ہے۔ یورپ کی سائنس و تیکنیکی ترقی اس کے سیکولر تناظر کا حاصل ہے۔ یورپ کی جمہوریت سیکولر ازم کی ’’پروڈکٹ‘‘ ہے۔ یورپ کی عالمی قوت سیکولر ازم کا حاصل ہے۔ پاکستان کا نظریہ اسلام تھا۔ سوشلزم اگر روس اور چین کو عالمی طاقت بناسکتا ہے تو اسلام بھی پاکستان کو دنیا کی بڑی طاقت میں ڈھال سکتا تھا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد ’’ناممکن کی جستجو‘‘ تھی اس لیے کہ قائداعظم کی ایک طرف وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ سے مقابلہ درپیش تھا اور دوسری جانب وہ ہندو اکثریت سے پنجہ آزمائی کررہے تھے مگر اسلام کی طاقت نے ناممکن کو صرف سات سال میں ممکن کردکھایا۔ پاکستان کا نظریہ یہ کرسکتا تھا تو پاکستان میں ایک نیا معاشرہ یا ایک نیا انسان اور ایک نئی زندگی بھی خلق کرسکتا تھا مگر پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کے نظریے سے غداری کی۔ جنرل ایوب خود بھی سیکولر تھے اور انہوں نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوایا اور ایسے عائلی قوانین مرتب کیے جو خلاف اسلام تھے۔ جنرل یحییٰ عملی زندگی میں ایک عورت باز اور شرابی کبابی انسان تھے اور انہیں ملک کے نظریے سے رَتی برابر بھی دلچسپی نہ تھی۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے اور انہوں نے معاشرے کو لبرل بنانے کی جدوجہد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی ’’پروڈکٹ‘‘ تھے اور انہوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔ حالاں کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے اور انہیں کسی طرح یکجا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جنرل ضیا الحق ذاتی زندگی میں ایک دین دار شخص تھے مگر ریاستی سطح پر انہوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لیے سرسری سطحی اور مصنوعی کوششیں کیں۔ انہوں نے اسلام کے نظام صلوٰۃ کو مذاق بنادیا۔ انہوں نے ایسی غیر سودی بینکاری متعارف کرائی جو اصل میں سودی تھی صرف اس کا نام اسلامی تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ جنرل ضیا الحق اسلام کا نام استعمال کرکے سیاسی فوائد سمیٹنا چاہتے تھے۔ میاں نواز شریف جرنیلوں کی پیداوار تھے اور انہیں آج تک ملک کے نظریے کے لیے کچھ کرتے نہیں دیکھا گیا۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کے نظریے کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں اسلام کے حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اسلام نہ کبھی انقلابی طاقت تھا، نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس صورتِ حال میں اسلام کا کوئی قصور نہیں۔ اسلام کا حال آج بھی اقبال کے الفاظ میں یہ ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
جمہوریت کے مقابلے پر آمریت کو بہت حقیر سمجھا جاتا ہے مگر آمریتوں نے بھی دنیا میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ روس پر کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کا غلبہ تھا مگر اس آمریت نے 70 سال تک روس کو بڑی طاقت بنائے رکھا۔ چین پر آج بھی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کا غلبہ ہے مگر اس آمریت نے چین کو امریکا کا ہم پلہ بنادیا ہے۔ سنگاپور کے لی کوان یو بھی ایک آمر تھے مگر ان کی آمریت نے مچھیروں کی بستی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر کھڑا کردیا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد بھی ایک آمر تھے مگر ان کی آمریت نے پسماندہ ملائیشیا کو دنیا کے امیر ملکوں میں شامل کردیا۔ لیکن پاکستان کے جرنیلوں کی آمریت آج تک پاکستان کو کچھ نہ دے سکی۔ جنرل ایوب کی آمریت نے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنادیا۔ عالمی بینک کی غلامی کا آغاز بھی جنرل ایوب نے کیا۔ پاکستان آج قرضوں کے سمندر میں غرق ہے تو اس کام کی ابتدا کرنے والے بھی جنرل ایوب تھے۔ بھٹو کی آمریت بھی جعلی تھی۔ انہوں نے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیا کر ملک کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے امکان کو مسدود کردیا۔
مغرب کا شاید ہی کوئی اہم لکھنے والا ایسا ہوگا جس نے یہ نہ لکھا ہو کہ مغرب کی ترقی میں جمہوریت کا کردار بنیادی ہے۔ اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت انسانی تاریخ کی ایک بہت ہی بڑی دریافت یا ایجاد ہے۔ اس دریافت اور ایجاد نے انسانی امکانات کی ایک نئی کائنات خلق کی ہے۔ یہ جمہوریت کے بارے میں ایک ’’مغربی تناظر‘‘ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت سے دنیا کی بہت سی قوموں نے بڑے کام لیے ہیں۔ بھارت میں آزادی کی ایک درجن تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارت کا جمہوری نظام بھارت کو متحد رکھے ہوئے ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جرنیلوں نے اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کی جمہوریت کو بھی جعلی بنادیا ہے۔ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں یعنی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پر دو خاندانوں کا قبضہ ہے۔ نواز لیگ شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کے پائوں کا جوتا ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پر مفتی محمود کے خاندان کا قبضہ ہے۔ اے این پی ولی خان کے خاندان کی جاگیر ہے۔
جمہوری انتخابات جمہوریت کی شان ہیں اور ان سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے۔ جس سے معاشرے میں سیاسی اور سماجی بے چینی رفع ہوتی ہے اور معیشت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں نے انتخابات کو مذاق بنادیا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی تھی اور اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا مگر جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو اقتدار دینے کے بجائے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب خود بخود اکثریت سے جیت رہے تھے مگر انہوں نے دھاندلی کرادی۔ جس کی وجہ سے ان کے خلاف عوامی تحریک چل پڑی جو مارشل لا پر منتج ہوئی۔ جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی انتخابات کراکے انتخابات کی سیاسی عصمت پر حملہ کیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 8 فروری کو انتخابات ہونے والے ہیں مگر پاکستان کے جرنیل عمران خان کی نفرت میں تحریک انصاف کو دیوار سے لگائے دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ چھین لیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف نے ٹھیک طرح سے بین الجماعتی انتخابات نہیں کرائے۔ ایسا ہی ہوگا مگر کیا نواز لیگ اور پیپلز نے ٹھیک طرح سے بین الجماعتی انتخابات کرائے ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے،
چنانچہ اصولی طور پر نواز لیگ کو شیر اور پیپلز پارٹی کو تیر سے محروم کردیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلاشبہ جرنیلوں نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کرواکر انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے دوران بھی جرنیل بڑے پیمانے پر دھاندلی کراتے رہے ہیں۔ نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف جیو سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کرچکے ہیں کہ انہیں گزشتہ انتخابات میں ہرایا جارہا تھا کہ انہوں نے رات گئے جنرل باجوہ کو فون کرکے اس امر کی شکایت کی۔ جنرل باجوہ نے کہا آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہوجائے گا اور واقعتاً چند گھنٹوں میں سب ٹھیک ہوگیا۔ خواجہ آصف ہارتے ہارتے جیت گئے۔ اس صورت حال نے پاکستان کے ہر انتخاب کو جعلی بنادیا ہے۔ کراچی کے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن تحریک انصاف کے تعاون سے کراچی کے میئر بن رہے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کے تین درجن منتخب نمائندوں کو غائب کردیا اور اس طرح مرتضیٰ وہاب کراچی کی میئر شپ پر قابض کردیے گئے۔ یہ ہے پاکستان میں انتخابات کی اصل اوقات۔