خود سے ایک سوال

587

اسٹیفن فلپ کوہن، جنہیں دنیا اسٹیفن پی کوہن کے نام سے جانتی ہے، ایک امریکی دانش ور اور سیکورٹی ایشوز لکھنے والے دانش ور گزرے ہیں، تیس برس درس و تدریس کا کام بھی کیا، جنوب ایشیاء کی صورت حال اور یہاں کے مسائل پر انہوں نے بہت کچھ لکھا، جو بھی لکھا اس میں انہوں نے اپنے ذاتی خیالات اور ترجیح بھی مد نظر رکھی، لہٰذا ضروری نہیں کہ ان سے اتفاق کیا جائے تاہم یہ ضرورہے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ دنیا کا جنوب ایشیاء کے مسائل پر کیا نکتہ نظر ہے۔ ان کی ایک کتاب ’’آئیڈیا آف پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، موصوف پاکستان کے سیاست دانوں کے بھی بہت قریب رہے بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے مہمان بھی رہے ان کی رائے میں پاکستان کا سیاسی نظام فوج، سول سروس، عدلیہ کے کلیدی ارکان اور کلیدی اہمیت کے حامل اداروں کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں وہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں وہ اپنی کتاب میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہر حال میں ریاست کے انتظام، اور سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتی ہے، پاکستان میں کئی بار یہ بات سنی گئی کہ سیاست دان ہی ملک چلائیں گے لیکن کا سیاسی نظام میں ہمیں عملاً کوئی ثبوت نہیں مل رہا، عمران خان کا پورا دور ہی ہائبرڈ نظام تھا، ان سے پہلے محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ بھی ایسی ہی تھی، اب پھر یہی کہا جارہا ہے ماضی کی بات ماضی کے ساتھ چلی گئی، لیکن ہمیں یہاں تو کاغذات نامزدگی تک چھینے جانے کی اطلاعات مل رہی ہے۔

ایک ایسی صف بندی نظر آرہی ہے جس میں نواز شریف پچھلی صفوں سے اٹھا کر اگلی صف میں بٹھائے جارہے ہیں، کون اٹھاتا ہے؟ کون آگے پیچھے کرتا ہے؟ نواز شریف بھی خوب جانتے ہیں، مگر بولتے نہیں۔ عمران خان بھی سب کچھ جانتے تھے اور جب انہوں نے اسلام آباد میں ایک سو بیس دن کا دھرنا دیا تو کیا یہ کام انہوں نے تنہا کیا اور کیا یہ کام اپنی مرضی سے کیا؟ ذرا ہم پیچھے چلتے ہیں۔ تین دہائیوں کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ ماضی میں کیا کچھ نہیں ہوا، ایوب خان دور میں مسلم لیگ تقسیم کی گئی، ایک دھڑا کونسل لیگ کہلایا اور دوسرا دھڑا کنونشن لیگ کہلایا، پھر انہی میں سے ایک دھڑا پیپلزپارٹی کے نام سے پاکستان کی سیاست میں ابھرا، ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ ایوب خان جیسے فوجی ڈکٹیٹر کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے لیکن ’’اعلانِ تاشقند‘‘ جیسے ایشو کی بناء پر جب استعفا دے کر کابینہ سے باہر آئے تو اْن کی مقبولیت کی ہوا پورے ملک میں چلنے لگی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کابینہ چھوڑ کر’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے نام سے نئی سیاسی جماعت قائم کی۔ ’’روٹی، کپڑا اورمکان‘‘ کا نیا نعرہ دے کر پاکستان کی سیاست ہی بدل ڈالی۔ اگرچہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگایا، غریب کی بات کی، تحریک انصاف بھی رد عمل میں بنائی گئی اس نے اشرافیہ کو اکٹھا کیا اور اسے گھر سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لائی۔ ضیاء دور میں پیپلزپارٹی بھی توڑی گئی، کوثر نیازی نے پروگریسو پیپلزپارٹی بنالی، مصطفی جتوئی نے نیشنل پیپلزپارٹی بنالی، ممتاز بھٹو سندھ فرنٹ کے نام سے سامنے آئے، ضیاء دور میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو نو منتخب اسمبلی میں مسلم لیگ نے جنم لیا، اسی پر اسپیکر فخر امام کے خلاف ریفرنس دائر ہوا تو انہیں اسپیکر شپ سے علٰیحدہ ہونا پڑا، ان کی جگہ حامد ناصر چٹھہ اسپیکر بنائے گئے، یہ سب کچھ ’’انگوٹھی رگرڑنے اور جن حاضر ہوجانے‘‘ پر ہی ہوا، پھر آئی جے آئی بنائی گئی، جنرل حمید گل نے کھلے عام اس کا کریڈٹ لیا کہ آئی جے آئی انہوں نے بنائی، مطلب یہ کہ یہ ہے ہماری سیاسی تاریخ، اس کے بعد کچھ عرصہ یہی کشمکش رہی، تاہم مسلم لیگ(ج) بھی تقسیم ہوگئی اور مسلم لیگ(ن) کا جنم ہوا۔

جب جنرل مشرف آئے اور ان کے بنائے ہونے نظام کی پسلی سے مسلم لیگ (ق) نکلی، مسلم لیگ تو اسٹار فش کی طرح رہی، اس سے جو دھڑا بھی الگ ہوا وہ ایک کامل مسلم لیگ بن کر چلتا رہا، یہ سب کچھ کسی کی مکمل پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوا، اب تحریک انصاف کے بھی تین دھڑے بن گئے ہیں، اور الگ الگ نام سے یہ تینوں جماعتیں الیکشن میں جارہی ہیں، پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی کو کون بھول سکتا ہے انہوں نے محمد نواز شریف پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ پھر اِسی صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا۔ بعدازاں انہیں وزیراعظم کے اعلیٰ ترین منصب سے بھی نوازا۔ مشرف دور میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی توڑی گئی اور پیٹریاٹ سامنے لائے گئے، فیصل صالح حیات، رائو اسکندر اقبال سمیت اکیس ارکان اسمبلی الگ ہوئے اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی بنیاد رکھی۔ مقصد یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کو کسی طرح سیاسی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ 2018ء میں نواز شریف کو اْن کے منصب سے ہٹایا گیا۔ مقصد عمران خان کو اقتدار میں لانا تھا مطلب یہ ہوا کہ کسی نہ کسی دور میں کوئی نہ کوئی آئینی حدود سے ہٹ کر سیاسی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کرتا رہا اب ہمیں ملکی سیاست اور معیشت چلانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

کوہن نے سیاسی جماعتوں اور علاقائی اشرافیہ کی طرف سے سیاست کی تشکیل میں کردار کا جائزہ لیا ہے اور ہم بھی پاکستان کے قابل فہم ’مستقبل‘ کو ذہن میں رکھ کر آگے دیکھ رہے ہیں اس وقت پاکستان ایک ایسے نازک موڑ پر ہے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان خود کو ایک دوراہے پر پاتا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ملک نے خود کو افراتفری سے زندہ کیا ہو اور ترقی کے راستے کو تبدیل کیا ہو ماضی کے منظرناموں کا خاکہ ہمیں مستقبل میں کہاں کھڑا کر رہا ہے یہی ایک بہت بڑا سوال ہے۔

معتبر، محفوظ تر، اک دیدہ ور ہوتے ہوئے
سب سے رستہ پوچھتا ہوں راہبر ہوتے ہوئے