مستنصر حسین تارڑ کی پنجابیت، اردو اور پاکستان

1059

معروف ادیب اور اینکر مستنصر حسین تارڑ نے لاہور میں تین روزہ پنجابی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اردو سے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی پنجابی مجھ سے ملتا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں کہ مجھ سے اردو کے بجائے پنجابی میں بات کرو۔ انہوں نے کہا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ جب تم نے اردو ناول لکھے ہیں اور تم ٹی وی پر آکر اردو بولتے ہو تو پھر تم صرف پنجابی میں گفتگو کیوں کرتے ہو؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تارڑ صاحب نے کہا کہ میں اردو صرف کھانے کمانے کے لیے بولتا ہوں۔ اگر آپ مجھے معاوضہ دو گے تو میں اردو بولوں گا، بصورت دیگر میں صرف پنجابی بولوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اردو والے کہتے ہیں کہ وہ ’’گنگا جمنی تہذیب‘‘ کا حصہ ہیں۔ اب میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کبھی ٹھیک سے نہ کبھی گنگا دیکھی نہ جمنا دیکھی، میں نے ہیر کی چناب دیکھی ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی، 21 دسمبر 2023)
قرآن مجید فرقان حمید جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کتاب ہدایت اور کتاب انقلاب ہے، مسلمانوں سے صاف کہتا ہے کہ تم اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ نہ رنگ کے تفرقے میں پڑو، نہ نسل کے تفرقے میں پڑو، نہ زبان کے تفرقے میں پڑو۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کی بڑی تعداد رنگ کے تفرقے میں بھی مبتلا ہے، نسل کے تفرقے میں بھی پڑی ہوئی ہے اور زبان کے تفرقے کا ہیضہ بھی اسے لاحق ہے۔ رسول اکرمؐ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ فوقیت ہے تو تقوے اور علم میں۔ سیرت طیبہ کا مشہور واقعہ ہے کہ مدینے میں ایک دن ایک مہاجر اور ایک انصاری میں جھگڑا ہوگیا۔ انصاری نے جھگڑے میں اپنی مدد کے لیے انصار کو آواز دی، مہاجر نے جھگڑے میں اپنی مدد کے لیے مہاجروں کو اپنی طرف بلایا۔ رسول اکرمؐ کو یہ معلوم ہوا تو آپؐ جائے وقوع پر پہنچے اور آپؐ کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں تعصب کے جن گڑھوں سے نکالا ہے تم پھر انہی گڑھوں میں جاگرے ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ پنجابیت، سندھیت، پشتونیت، مہاجریت اور بلوچیت کی بنیاد پر نہیں۔ اقبال مصور پاکستان ہیں اور انہوں نے صاف کہا ہے۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مگر مستنصر حسین تارڑ اقبال کے لاہور میں بیٹھ کر اردو کے خلاف ’’پنجابیت‘‘ کا پرچم بلند کررہے ہیں۔
اردو زبانوں کی تاریخ کا ایک معجزہ ہے۔ زبانیں ہزاروں سال کے تہذیبی عمل سے وجود میں آتی ہیں مگر اردو پانچ سو سال سے زیادہ کی تاریخ نہیں رکھتی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے ٹھوس تشخص کی عمر تین سو سال ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو اس زمانے میں تخلیق ہوئی جسے برصغیر میں مسلمانوں کا ’’عہد زوال‘‘ کہا جاتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو ملت عہد زوال میں دنیا کی ایک عظیم الشان زبان تخلیق کرسکتی ہے اس نے اپنے عہد عروج میں کیا نہیں کیا ہوگا۔ لیکن اردو کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اردو صرف تین سو سال میں اسلامی ادب کی سب سے بڑی زبان بن کر اُبھری ہے۔ اس سلسلے میں پنجابی کیا عربی اور فارسی بھی اردو کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اردو نے گزشتہ دو سو سال میں تفسیر کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ گزشتہ دو سو سال میں اردو میں پچیس تیس بڑی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ اردو نے دو سو سال میں علم حدیث کو برصغیر میں زندہ کیا ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں اردو میں سیرت پر اتنا کام ہوا ہے کہ صرف شبلی نعمانی کی سیرت النبی جیسی کتاب برصغیر کی کسی زبان کیا عربی اور فارسی میں بھی موجود نہیں۔ اردو نے برصغیر میں فقہ کی روایت کی پاسداری اور فروغ میں جیسا کردار ادا کیا ہے اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امت مسلمہ کی مذہبی زبانیں صرف تین ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو۔ اردو کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اردو نے گزشتہ تین سو سال میں شاعری کا سمندر تخلیق کرکے دکھایا ہے۔ اس شاعری میں میر، غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعر ہیں۔ اس شاعری میں دوسرے درجے کے درجنوں شاعر ہیں۔ تیسرے درجے کے ہزاروں شاعر ہیں۔ چوتھے درجے کے لاکھوں شاعر ہیں۔ اردو نے آزاد نظم کے دائرے میں ن م راشد، فیض، میرا جی، اختر الایمان اور عزیز حامد مدنی جیسے شاعر پیدا کیے ہیں۔ اردو نے اکبر الٰہ آبادی جیسا ظریفانہ شاعری کرنے والا شاعر خلق کیا ہے۔ اکبر کی عظمت یہ ہے کہ اقبال نے ان کے انتقال پر ان کے فرزند کے نام تار میں کہا تھا کہ آپ کے والد اتنے بڑے شاعر تھے کہ پورے ایشیا میں ان کی مثال موجود نہیں۔ اردو نے نثر کے دائرے میں بھی کمال کیا ہے۔ اس نے قرۃ العین حیدر جیسی ناول نگار پیدا کی۔ قرۃ العین حیدر کا ناول آگ کا دریا اور گردش رنگ چمن 20 ویں صدی کے عظیم ناولوں میں سے ہیں۔ اردو نے منشی پریم چند، بیدی، منٹو، غلام عباس، کرشن چندر اور انتظار حسین جیسے افسانہ نگار دنیا کو دیے ہیں۔ اردو نے حسن عسکری، سلیم احمد، کلیم الدین احمد، شمس الرحمن فاروقی اور وزیر آغا جیسے نقاد دنیا کو دیے ہیں۔ ان نقادوں میں عسکری صاحب کا مقام یہ ہے کہ ان کے دس بہترین مضامین کو دنیا کے کسی بھی نقاد کے دس مضامین کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اردو نے مزاح کے دائرے میں بھی بڑے لوگ پیدا کیے ہیں۔ بلاشبہ مشتاق یوسفی اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح کا عالمی سطح پر کسی کے بھی مزاح سے موازانہ کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری سو سال پرانی ہے اور اس پوری انڈسٹری پر اردو سایہ کیے کھڑی ہے۔ بھارت نے گزشتہ سو برسوں میں اگر پانچ ہزار اہم فلمی گیت تخلیق کیے ہیں تو ان میں ساڑھے چار ہزار گیت اردو ہی میں ہیں۔ اس فلم انڈسٹری نے اگر سو سال میں سو بڑی فلمیں خلق کی ہیں تو ان سو بڑی فلموں کے 90 فی صد مکالمے اردو میں ہیں۔ پاکستان میں اردو نے بڑا ٹیلی ڈراما تخلیق کیا ہے۔ ان ڈراموں کا سب سے بڑا نام اشفاق احمد ہے۔ ان کے درجنوں ڈرامے اور سیریلز ایسے ہیں جن کو عالمی سطح پر فخر کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی تخلیق دو چیزوں سے ہوئی۔ اسلام سے اور اردو سے۔ اسلام نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ اسی طرح اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے مستنصر حسین تارڑ نے اُس زبان کے لیے نفرت کا اظہار کیا ہے جو پاکستان کی خالق ہے۔ چنانچہ تارڑ صاحب نہ صرف اردو کے خلاف ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان اور اس کی روح کے خلاف بھی زہر اگلا ہے۔
زبانیں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ چنانچہ کوئی مسلمان کسی بھی زبان کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ جس طرح اردو اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے اسی طرح پنجابی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔ لیکن نشانیوں میں چھوٹے بڑے کا فرق ہوتا ہے۔ بلاشبہ اردو ایک سمندر ہے اور پنجابی اس کے مقابلے پر صرف ایک تالاب ہے۔ اقبال 20 ویں صدی کے سب سے بڑے شاعر تھے مگر انہوں نے شاعری کی تو اردو اور فارسی میں۔ اقبال پنجابی تھے مگر انہوں نے پنجابی میں ایک مصرع بھی نہیں لکھا۔ ن م راشد آزاد نظم کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور وہ بھی پنجابی ہیں مگر انہوں نے بھی اردو کو ذریعہ اظہار بنایا۔ انہوں نے پنجابی میں ایک نظم بھی نہیں لکھی۔ فیض بھی پنجابی تھے مگر انہوں نے پنجابی میں صرف ایک نظم لکھی ہے۔ اردو افسانے کا سب سے بڑا نام راجندر سنگھ بیدی ہے۔ بیدی بھی پنجابی ہے مگر اس نے اردو میں افسانے لکھے۔ اس نے پنجابی کو اپنے فن کی بنیاد نہیں بنایا۔ منٹو اردو افسانے کا دوسرا بڑا نام ہے۔ وہ بھی پنجابی تھا، مگر اس نے بھی پنجابی میں کچھ نہیں لکھا۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے مراکز بدلتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اسلام کا مرکز مکہ تھا۔ پھر اسلام کا مرکز مدینہ ہوگیا۔ ایک وقت آیا کہ اسلام کا مرکز بغداد اور دلی بن گئے۔ اردو پر بھی اسلام کا سایہ ہے۔ چنانچہ اس کے مرکز بھی بدلتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اردو کا مرکز دلی اور یوپی تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حیدرآباد دکن اردو کا مرکز بن کر ابھرا۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب اردو کا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھرا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو ادب کے پچاس بڑے ناموں کا شمار کیا جائے تو ان میں سے 25 ناموں کا تعلق پنجاب سے ہوگا۔ اس کے باوجود مستنصر حسین تارڑ پنجاب کے قلب میں بیٹھ کر اردو کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ بلاشبہ جرنیلوں، نواز شریفوں اور زرداریوں کے پاکستان میں جو ہوجائے کم ہے۔