لاپتا لوگ اور جان اچکزئی کابیان

926

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان سے کوئی شخص لاپتا نہیں ہے جبکہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ دہشت گردوں کی سہولت کاری کے لیے تھا۔ انہوں نے یہ بات یونہی چلتے پھرتے کسی تبصرے میں نہیں فرمائی بلکہ باقاعدہ پریس کانفرنس طلب کرکے سوچ سمجھ کر یہ باتیں کی ہیں۔ البتہ باتوں سے نہیں لگتا کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر کچھ کہا ہے۔ جان اچکزئی دعویٰ کررہے ہیں کہ تربت سے کوئٹہ اور وہاں سے اسلام آباد لانگ مارچ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھا۔ تربت واقعے کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمے اور واقعے کی تحقیقات سمیت دیگر جائز مطالبات مان لیے گئے تھے لیکن پھر بھی لانگ مارچ کیا گیا۔ ان کی ساری گفتگو غصے کے عالم میں تھی اور صاف محسوس ہورہا تھا کہ وزیر موصوف آپے میں نہیں ہیں۔ ان کے جملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تربت اور بعض علاقوں میں فورسز کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریاست اپنے اداروں کو غیر مسلح نہیں کرسکتی۔ ان کا کہنا بجا ہے لیکن ریاست کے اداروں کے ہاتھ میں اسلحہ کسی قاعدے قانون ضابطے کے تحت استعمال ہوتا ہے یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ عجیب بات کر گئے کہ شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابی پشتونوں کو قتل کیا گیا۔ بلوچستان میں نسلی تعصب کی بنا پر ہزاروں غیر بلوچوں کو قتل کیا گیا لیکن کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ اس پر کوئی کمیشن کیوں نہیں بناتا۔ انہوں نے یہ کہہ کر بلوچستان کا سارا مسئلہ ہی حل کردیا۔ آج کل وہ وزیر ہیں اور اتنے طاقتور ہیں کہ دوٹوک انداز میں بات کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان سے کوئی شخص لاپتا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی کمیشن کیوں نہیں بناتا تو اب انہیں فوری طور پر بلوچستان میں غیر بلوچوں کے قتل کے معاملے پر عدالتی کمیشن قائم کروانا چاہیے۔ جہاں تک لاپتا لوگوں کا تعلق ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ یا تو وہ پہاڑوں پر ہیں یا بھارت میں تربیت لے رہے ہیں۔ گویا یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ لانگ مارچ والے جن لوگوں کے نام لے رہے ہیں وہ کالعدم تنظیموں کے پاس ہیں اور بھارت میں ہیں تو فوری طور پر ان کے نام شائع کرکے مقدمات کی تفصیل اور ثبوت پیش کیے جائیں تا کہ ان کے بقول دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو خاموش کرایا جاسکے۔ معاصر روزنامہ جنگ نے تو ان کے بیان میں لکھا ہے کہ یہ دہشت گردوں کا مارچ تھا اور دہشت گردوں کی سرخیل ایک دہشت گرد کی بیٹی ہے۔ اور یہ کہ سیاسی جماعتیں لاپتا افراد کا مسئلہ انتخابی مہم کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ وزیر صاحب کے اس بیان میں دہشت گردوں، دہشت گردوں اور سہولت کار کی تکرار ہے۔ گویا یہ ان کی حکومت کا اٹل فیصلہ ہے کہ یہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا مارچ ہے، یعنی ان سے کسی قسم کے مذاکرات بھی نہیں ہوں گے اور بات بھی نہیں کی جائے گی۔ لیکن ایک طرف صوبائی وزیر یہ باتیں کررہے ہیں اور دوسری طرف مرکز میں نگراں وزیراعظم جو خود بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیںکی قائم شدہ کمیٹی کی ہدایت پر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے اس مارچ سے گرفتار 290 افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔ 163 افراد میں سے بیشتر اڈیالہ جیل سے اپنے رشتے داروں کے ساتھ گھر جاچکے ہیں۔ پھر یہ سارے دعوے کیا ہیں۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے تو مذاکرات نہیں ہوسکتے ان کو ضابطے کی معمولی کارروائی کے بعد کیوں چھوڑ دیا گیا۔ دراصل پاکستان میں حکمرانوں کا فیشن ہوگیا ہے کہ جس نے اختلاف کیا اسے غدار، بھارت کا ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دے دیا۔ اور اس معاملے میں بھی پالیسی کبھی ایک نہیں رہی۔ کسی زمانے میں بلکہ کئی مرتبہ ایم کیو ایم کے الطاف حسین غدار قرار دیے گئے اور ان کی پارٹی کو بار بار حکومتوں میں شامل کیا گیا۔ کئی بلوچ لیڈروں کو غدار قرار دیا گیا پھر انہیں حکومت میں شامل کرلیا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت سے حب الوطنی کا ثبوت دینے والے بلوچ لیڈر اکبر بگٹی کو غدار قرار دے کر قتل کردیا گیا۔ سندھ میں جام صادق علی کو درجنوں مقدمات میں ملوث قرار دیا گیا پھر نگراں وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو ملک دشمن غدار وغیرہ سب کچھ تھا لیکن پاکستان آکر سندھ اسمبلی کا رکن بن گیا۔ پھر یہ بلوچ لوگ اتنے بھی خطرناک نہیں ہوں گے جتنے مرتضیٰ بھٹو، غلام مصطفی کھر، عبدالمالک بلوچ وغیرہ تھے پھر ان سے مذاکرات کرکے ان کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے نگراں وزیراطلاعات بیانات کی توپیں کیوں چلا رہے ہیں۔ ان کو اندازہ نہیں کہ وہ مختصر وقت کے لیے وزیر ہیں ان کے بیان کی چبھن برسوں موجود رہے گی۔ اور جو پالیسی ساز ہیں وہ بھی غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنا بند کردیں یا جو کہہ دیں اس پر قائم رہا کریں۔اس قسم کی باتیں کر کے تو وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جتنے لوگ بلوچستان سے حکومتوں میں گئے ہیں در حقیقت یہ خود لا پتا بلوچ ہیں ۔ جب یہ اپنے لوگوں میں واپس آئیں گے تو ان سے لوگ حساب لیںگے ۔