دہشت گردی میں اضافہ اور بے بسی کا اظہار

597

پاکستان میں حکومت فوج اور تمام مقتدر حلقوں کی جانب سے ملک کے محفوظ ہونے اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے اعلانات کے باوجود کئی روز سے ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2 نومبر کو بلوچستان میں دہشت گردوں نے فوجی قافلے پر حملہ کیا جس میں 14 جوان شہید ہوئے۔ یہ حملہ پسنی سے اورماڑہ جانے والی گاڑی پر گھات لگا کر کیا گیا۔ اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس وین کے قریب دھماکے سے 5 افراد جاں بحق ہوئے، 21 زخمی ہوئے۔ اس کارروائی پر آئی ایس پی آر نے ملزمان کو کٹہرے میں لانے کا اعلان کیا اور وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سے شہدا کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ اس سے ایک روز قبل میانوالی میں ائربیس پر حملہ ہوگیا تین طیاروں اور فیول بائوزر کو نقصان پہنچا۔ اس کارروائی میں 9 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ اور پھر 6 جون کو وادی تیراہ میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران لیفٹیننٹ کرنل سمیت فوج کے 4 جوان شہید ہوگئے۔ اس کارروائی میں 3 دہشت گرد ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔ یہ کارروائی چند ہی روز قبل اعلیٰ حکام اور اعلیٰ ترین ذرائع کی جانب سے ملک میں امن وامان قائم کرنے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے اعلان کے بعد ہوئی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اس صورت حال کے بعد جو بات کہی گئی وہ نہایت خطرناک ہے۔ اس بیان میں پاکستان کی جانب سے بے بسی کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا کہ دو ہمسایہ ممالک بلیک میل کررہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ 31 اکتوبر کو ژوب میں ہونے والے واقعے میں 6 افغان باشندے ملوث پائے گئے۔ اور یہ شکوہ کیا کہ بھارت کی دہشت گردی پر عالمی طاقتیں خاموش ہیں۔ اگرچہ ان کا موقف اور مثالیں درست ہیں لیکن یہ کام کسی صوبے کے وزیر اطلاعات کا نہیں تھا ان لوگوں کا تھا جو بار بار ملک میں ہر قیمت پر امن قائم کرنے کے اعلانات کرتے ہیں اور پھر ایسے واقعات ہوجاتے ہیں۔ جان جمالی نے یہ درست کہا کہ بھارتی ایجنسیز خطے میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔ قطر میں بھارتی بحریہ کے اہلکاروں کی سزا اس کا ایک ثبوت ہے اور کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل دوسرا اعلانیہ ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کلبھوشن یادو کو پکڑا ہوا اور سزا بھی سنائی جاچکی ہے لیکن سارے الزامات درست ہونے کے باوجود پاکستان کی حدود میں دشمن کا اتنا بڑا نیٹ ورک قائم رہنا جو جب چاہے کسی بھی جگہ واردات کردیں اس سے تو ہمارا سیکورٹی نظام مکمل ناکام نظر آرہا ہے۔ ائربیس کے اندر داخل ہونا بھی ایک معمہ ہے ہمیشہ کی طرح تمام دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کے اتفاق کو کیا کہا جائے کہ اب کمشنر کوئٹہ اور وزیر اطلاعات بلوچستان ان کے بارے میں جو بولیں گے اس پر یقین کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک میں کوئی ہلچل کوئی دہشت گردی یا کوئی سانحہ ہوجائے ہماری ایجنسیوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ لوگ کہاں سے آجاتے ہیں کب گھات لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور کب ائربیس جیسی جگہ پر گھس جاتے ہیں۔ افغانستان سے اب نئے لوگوں کی آمد بند ہے۔ بھارت کے ساتھ راستے بند ہیں۔ ہرطرف سخت سیکورٹی ہے۔ اگر نئے لوگ داخل ہورہے ہیں تو بھی باعث تشویش ہے اور اگر پرانے لوگ تھے تو اب تک ہمارے خفیہ ادارے کیا کررہے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعے تک حکومت اور سیکورٹی اداروں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا لیکن دہشت گردوں کو ہلاک کرتے ہی تمام رپورٹس نہایت چابکدستی سے سامنے لائی جاتی ہیں، کون کون کہاں سے آیا کہاں گیا دہشت گردی میں کہاں کا اسلحہ استعمال ہوا اور ان کے ماسٹر مائنڈ کون تھے۔ جہاں تک 6 افغانوں کے ملوث ہونے کا تعلق ہے یہ سچ بھی ہوسکتا ہے لیکن سرکار کا کام بکتے ہوئے سودے کو بیچنا ہوتا ہے۔ جب القاعدہ اور ٹی ٹی پی کا سودا بک رہا تھا تو ہر آدمی کا ان سے تعلق ثابت کردیا جاتا تھا۔ اب افغان مہاجرین کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا سودا بک رہا ہے تو ہر واردات ان کے کھاتے میں ڈالی جاسکتی ہے۔ لہٰذا وزیر اطلاعات کی بات کو اس وقت تک مستند نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ تحقیق کے عمل سے نہ گزر جائے۔ معاملہ جو بھی ہو اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کو نقصان ہورہا ہے اور پاکستانی حکمرانوں اور ذمے داران کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے فعال ہونے اور واردات کے بعدسلیپنگسیل کے بیدار ہونے کی باتوں سے دنیا کو خصوصاً بھارت کو موقع ملتا ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دینے لگتا ہے۔ لہٰذا ہمارے حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں کو کسی بھی واردات کے بعد غیر ذمے دارانہ بیان دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ تمام معلومات یا ناقص معلومات بھی نمبر بنانے کے لیے میڈیا کو دینے سے نقصان ہی ہوتا ہے۔ اور دہشت گردوں کو فائدہ ۔مثال کے طور پر دہشت گردوں کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں ۔ان کے گائوں پر چھاپا ماراگیا ہے ۔ وغیرہ ۔اگر دوسرے ممالک کے ملوث ہونے کا الزام یا ثبوت ہیں بھی تو سیکورٹی چوکس کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ افغانستان سے تعلقات کیوں خراب ہورہے ہیں۔ دوست اور پڑوسی افغانستان کے بارے میں بھارت سے زیادہ سخت رویہ ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے جو کام بھی کرنا ہو نرمی سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی افغان کسی واردات میں ملوث ہو تو بھی اسے گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دی جائے، بیانات کی توپ کا فائدہ نہیں ہوتا۔ بھارت کے جاسوس کو مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اس کا معاملہ بھی منطقی انجام کو پہنچ جانا چاہیے۔ یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پڑوس کے ملکوں سے کشیدگی کن معاملات پر ہورہی ہے۔ بھارت تو کشمیر پر قابض ہے اس سے کشیدگی کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن افغانستان سے تو صرف امریکی رضا کی خاطر تعلقات خراب کیے جارہے ہیں ان کے 40 لاکھ لوگ اگر ہمارے مہمان ہیں اور 40 سال سے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ افغانوں کے دل میں پاکستان کے لیے ہمدردی اور محبت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ بھارتی دہشت گردی پر عالمی برادری کی خاموشی میں بھی ہماری خارجہ پالیسی اور حکمت عملی کی ناکامی کا اعلان ہے۔ عالمی برادری کو بار بار حقائق تو بتائے جائیں بات کرنے والے لوگ تو موثر انداز میں بات کریں۔ صرف سیر سپاٹے کے وفود تو نہ بھیجے جائیں۔ کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے بھی ان لوگوں کو بھیجا جاتا ہے جو اپنے ملک کے مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔ تو جتنی سازشیں اور مداخلتیں دوسرا ملک کرتا ہے اس سے زیادہ نالائقی اپنی بھی ہے۔مضبوط خارجہ پالیسی مضبوط موقف اور موثر سفارتکاری کے ساتھ ساتھ عملاً بھی کچھ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ابھی تو افغانستان نے امریکیوں کوشکست دے کر دنیاکو پیغام دیا ہے کہ اسباب ہی سب کچھ نہیں ۔پاکستانی حکمراں بھی خارجہ پالیسی پر توجہ دیں کہاں کمزوری ہے۔