ڈالر کی رخصتی کا لمحہ آگیا کیا؟

438

ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اتحاد BRICS نے عالمی مالیاتی نظام سے امریکی ڈالر کو بے دخل کرنے کی بھرپور تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر جو بائیڈن ڈالر کو ری کال کرکے ڈجیٹل کرنسی کی طرف جانے کا اعلان کرسکتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن کوئی بہت بڑا اعلان کرنے والے ہیں؟ میڈیا میں اس حوالے سے بہت کچھ آرہا ہے۔ وہ اعلان کیا ہوسکتا ہے؟ امریکی کرنسی ڈالر کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اتحاد BRICS نے حال ہی میں اپنے سربراہ اجلاس کے دوران یہ بات کھل کر کہی کہ آپس کے لین دین میں امریکی ڈالر کو زحمتِ کار دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

 چین، بھارت اور روس پہلے ہی امریکی ڈالر سے جان چھڑانے کی طرف بہت بڑھ چکے ہیں۔ چین چاہتا ہے کہ ایشیا کی سطح پر لین دین مقامی کرنسیوں میں ہو۔

کیا امریکی محکمہ خزانہ صورتِ حال کی نازکت کو محسوس کر رہا ہے؟ معروف بزنس ویب سائٹ بزنس انسائڈر کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ، مرکزی بینک (فیڈرل ریزرو) اور ایوانِ صدر یعنی وھائٹ ہائوس میٹنگز کر رہے ہیں تاکہ ڈالر کو یقینی موت سے بچایا جاسکے۔ دنیا بھر میں ڈالر کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ چند پس ماندہ ممالک عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی مہربانی سے اب تک امریکا اور یورپ کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایشیا کی ترقی یافتہ اور دوسرے خطوں کی ابھرتی ہوئی معیشتیں امریکا کے خلاف محاذ کھڑا کر رہی ہیں۔ سارا زور اس نکتے پر ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کو صرف ڈالر پر انحصار کرنے سے روکا جائے اور دیگر مضبوط کرنسیوں کو بھی عالمگیر لین دین کا حصہ بنایا جائے۔

ڈجیٹل کرنسیوں کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل معروف بینکار اور انویسٹمنٹ بینک کے سابق نائب صدر ٹیکا تِواری کہتے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن ممکنہ طور پر یکم نومبر تک ڈالر کے ری کال کا اعلان کرسکتے ہیں۔ جس طور بہت سے کاروباری ادارے اپنی مصنوعات ری کال کرکے ان کی جگہ کچھ اور دیتے ہیں بالکل اُسی طور امریکا بھی ڈالر واپس لے کر اس کا ڈجیٹل ورژن دے سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایلون مسک، جیف بیزوز، ایپل کے سی ای او ٹِم کُک، فیس بک کے مالک مارک زکربرگ، مارک کیوبن، پال ٹیوڈور، اسٹینلے ڈرکنملر اور دوسرے بہت سے ارب پتی بزنس مین اور سرمایہ کار اپنے سیکڑوں ارب ڈالر بچانے کے لیے متحرک ہیں۔

1971 میں اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ڈالر کو گولڈ اسٹینڈرڈ سے الگ کرکے ایک طوفان سا برپا کردیا تھا۔ تب سے اب تک ڈالر کی قدر میں مجموعی طور پر 87 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ پس ماندہ ممالک بھلے ہی امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور ڈالر کی گرفت سے نکل نہیں پارہے تاہم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتیں ڈالر کو ایک طرف ہٹاکر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔

 چین اور روس کے بعد اب بھارت، جنوبی افریقا اور برازیل بھی میدان میں ہیں۔ ایشیا کی سطح پر جنوبی کوریا، ترکی اور چند ایک عرب ریاستیں بھی ایسا ہی کوئی فیصلہ کرلیں تو دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ امریکا کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

عالمی میڈیا میں کئی ماہ سے امریکی ڈالر کے فری فال کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام پر امریکی ڈالر کی گرفت پریشان کن رفتار سے ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ مضبوط کرنسی والے دیگر ترقی یافتہ ممالک اب امریکا اور یورپ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل کے حوالے سے بھارت اور کینیڈا کے درمیان جو مناقشہ چل رہا ہے اُس میں بھارت کا رویہ کینیڈا سمیت پوری مغربی دنیا کے لیے انتہائی حیران کن ہے۔ بھارت کی سخت گیری اور ہٹھ دھرمی مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہوسکتی ہے۔ امریکا اور یورپ سے اچھے تعلقات کے ذریعے خوب سہولتیں اور مال بٹورنے والے بھارت نے کینیڈا سے مناقشے کی صورت میں جس طرح آنکھیں پھیری ہیں وہ مغرب کے لیے ویک اپ کال ہے۔

عالمی میڈیا میں ایسے 110 بینکوں کی لسٹ گردش کر رہی ہے جو امریکی ڈالر سے اپنے آپ کو دور کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ یاہو فائنانس کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ، امریکی مرکزی بینک اور امریکی ایوان صدر مل کر ماہرین کے ساتھ ڈجیٹل کرنسی کی طرف بڑھنے کے حوالے سے مشاورت کر رہی ہے۔ اس حوالے سے عوام کو اپ ڈیٹ کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی جارہی۔ جو کچھ بھی سامنے آرہا ہے وہ محض قیاس آرائیوں کی شکل میں ہے یعنی جتنے منہ اُتنی باتیں۔ کاروباری تجزیے کے معروف ادارے بیرنز کی رپورٹ کے مطابق امریکی بیورو کریٹس کو ڈجیٹل کرنسیوں کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں اس لیے امریکی حکومت نجی شعبے کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ ہائی ٹیک کمپنیوں کو ڈجیٹل کرنسی کے حوالے سے ٹاسک دیا جاچکا ہے۔