فلسطینی مائوں کی قوت

398

مائوں کے عالمی دن (مدرز ڈے) پر فلسطینی ماں کی حالت کا جائزہ ضروری ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سوگ منا رہی ہیں۔ اپنے جواں سال بیٹوں اور بیٹیوں کی خون سے لت پت لاشے دیکھ رہی ہیں اور خون کے آنسو بہا رہی ہیں۔ صبر کے گھونٹ پی رہی ہے۔ مسکرا رہی ہیں اور مطمئن ہیں ربّ کی راہ میں مسجد اقصیٰ کے لیے اپنے بچوں کی شہادت پر ربّ کی حمد وثنا کرکے قبولیت کی دعائیں کررہی ہیں۔ یہی بات ان پر صبر و سکینت طاری کردیتی ہے۔ غزہ فلسطین میں کوئی ایسا گھر نہیں جس میں ایسی کوئی ماں نہ ہو کہ جس نے صہیونی حملوں میں اپنے بچے کو نہ کھویا ہو یا کوئی ایسا گھر نہیں کہ جہاں بچوں نے اپنی ماں کھودی ہو۔ شاید ہی کسی کے سینے میں ایسا دل ہو کہ وہ غزہ میں مائوں سے بچے جدا ہونے اور بچوں سے مائیں جدا ہونے پر رنجیدہ نہ ہو۔ ہزاروں فلسطینی مائیں ہلاک کردی گئیں، ہزاروں مائوں سے ان کے لخت جگر چھین لیے گئے، ہزاروں مائیں ایسی ہیں کہ جن کے لخت جگر اسرائیلی قید خانوں میں برسوں سے قید ہیں، وہ مائیں اپنے بچوں سے ملنے کے لیے ترستی ہیں، مہینوں اور برسوں گزر جاتے ہیں لیکن ظالم اسرائیلی ان کو ملاقات تک کی اجازت نہیں دیتے، ان میں سے اکثریت بغیر کسی جرم کے پکڑ کر قید کیے گئے ہوتے ہیں۔ ان ہی مائوں میں ’’اُم ملاک‘‘ بھی ہیں جو اپنی 14 سالہ بیٹی سے ملاقات کے لیے بے قرار رہی، وہ اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ صہیونی درندوں نے اُن کی معصوم بچی کو جس کی عمر صرف 14 سال ہے رام اللہ کے الجزون کیمپ سے اغوا کیا اور کسی عقوبت خانے میں قید کردیا۔ اب کوئی نہیں بتاتا کہ اس پر کیا گزر رہی ہے۔

اسرائیلی جیلوں میں قید کمسن بچوں کی تعداد جو 18 سال سے کم ہیں سیکڑوں میں ہے۔ صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں بے جرم و خطا گرفتار کی گئی خواتین بچوں کی مائیں ہیں۔ سوچیے ان کے پیچھے ان کے بچے کیسے تڑپ تڑپ کر زندگی گزارتے ہوں گے۔ ان مائوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کلیجے پھٹنے لگتے ہیں جن کے بچے صہیونی فورسز کی بمباری اور گولہ باری کے باعث ملبے تلے دبے ہیں۔ وہ مائیں جو رو رو کر اپنے بچوں کی لاشیں ملبے تلے سے نکالنے کے لیے بے قرار ہیں اور امدادی کارکنوں سے اس کے لیے اپیلیں کررہی ہیں فلسطینی قوم کو قدرت نے ایسی بہادر مائوں سے سرفراز کیا ہے کہ جن کی گود میں پرورش پانے والے صہیونی ریاست کے ظالمانہ اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کا بے جگری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے مصائب اور آلام ایسے ہیں کہ ساری دنیا ان کے صبر برداشت اور جذبہ پر حیران ہے۔ ان بہادر غیور فلسطینی مائوں میں صبیحہ القواسمی جو اُم حسن کے نام سے مشہور رہیں، اُن کی زندگی قربانی، بہادری، دلیری، صبر، استقامت اور حب الوطنی کا عملی نمونہ ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں جلا وطن، اسیر اور شہید بیٹوں کی ماں کہلاتی تھیں، آج سے نہیں برسوں پہلے فلسطینی قوم شہیدوں، غازیوں اور اسیروں کی باوفا و بہادر قوم ہے۔ اُم حسن کی طرح ام فضاء ہیں جن کے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی میں سے ایک شہید ہوچکا اور چار بیٹے اور بیٹی صہیونی زندانوں میں قید ہیں، ان مجاہد فلسطینی خاتون کی املاک بھی صہیونی حکام نے مسمار کردی تا کہ اس پر قبضہ کیا جاسکے۔ اس فلسطینی ماں کے بارے میں کیا سوچا جاسکتا ہے کہ اس کے کرب اور تڑپ کا کیا حال ہوگا جس نے شادی کے 13 سال بعد بچہ پایا اور وہ انیس سال کا ہوا تو پھر اُسے صہیونی دہشت گردی کے باعث کھودیا۔ دنیا بالکل خاموش رہی، فلسطینی مائوں کی گودیں اُجڑتی رہیں، معصوم بچے مائوں سے محروم ہوتے رہے۔ دہشت گرد صہیونی ریاست دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کی حمایت سے ظالمانہ اور غیر انسانی کاموں میں مشغول رہی، سارے اصول اور انسانی حقوق بھی اسی ملبے تلے دب گئے۔ طاقت بدھسٹ صہیونی ریاست ’’دفاع کے حق‘‘ کی آڑ میں جب چاہے جیسے چاہے بے روک ٹوک کررہا ہے اور دنیا میں مہذب کہلانے والی قومیں اس کو مکمل اسلحہ فراہم کررہی ہیں۔ بھلا بتائیے تو معصوم 12 سالہ بچی الماء جو اپنے خاندان میں واحد زندہ بچ جانے والی ہے وہ کیا کرے اس کی ماں کے والدین چودہ سالہ بھائی دو چھوٹی بہنیں سب بمباری میں ملبے تلے دب کر شہید ہوگئے، سب سے چھوٹا بھائی اٹھارہ ماہ کا تھا کیا ان جیسے ہزاروں بچوں، مائوں اور نوجوانوں کو قتل کرنا ’’دفاع کا حق‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ صہیونی ریاست کی یہ دلیل بودی اور انتہائی کمزور ہے۔ معاملہ اب بالکل برعکس ہے۔ یہ ثابت ہوچکا کہ قابض صہیونی ریاست کے ساتھ تصادم میں مزاحمت کا ایک ایسا محور تیار ہوگیا ہے کہ جو فلسطین اور فلسطین کے باہر پوری دنیا میں صہیونی قابض ریاست اور اس کے تمام ہمدردوں کو چیلنج کررہا ہے۔