عالَمی اِقتِصادی مَنظَرنامہ

780

پلاسٹک، ای اور ورچوئل کرنسیاں عصرِ حاضر کے سرمایہ دارانہ یا اِقتِصادی نظام کا عظیم ترین مکر و فریب ہے۔ یہ غیر فطری نظام ہے۔ دہریت کے فلسفے کو سرمایہ دارانہ تہذیب ہی نے جنم دیا ہے۔ مندرجہ بالا کرنسیوں کے نظام نے محنت کشوں کو افراط زر اور شرحِ تبادلہ کی شعبدہ بازی کی وجہ سے نہایت مْفلس و مْحتاج بنا دیا ہے۔ جان مینارڈ کینز (1883ء، 1946ء) ایک برطانوی ماہر معاشیات اور فلسفی تھا، اس کے خیالات نے بنیادی طور پر میکرو اکنامکس اور حکومتوں کی اِقتِصادی پالیسیوں کے نظریے اور عمل کو تبدیل کر دیا۔ اس کے مطابق ’’مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصّے پر قبضہ کرلیتی ہے، یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں‘‘۔ دنیا کے صہیونیت نواز سود خور خاندانوں کے گٹھ جوڑ نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ذریعے ذاتی قدر و قیمت رکھنے والی کرنسی (دینار و درہم) کو ایسی کرنسیوں سے تبدیل کر دیا جس کی کوئی ذاتی قدر و قیمت نہیں ہے۔

ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات ہے

کارل مارکس جس کے نظریہ سے اختلاف بجا ہے مگر اس کی تحریریں یہودی مخالف جذبات سے بھری ہوئی ہیں، جو یہودیت سے ’’انسانوں کی آزادی‘‘ کا منتظر تھا، اس نے دولت و پیسے کو ’’اسرائیل کا غیرت مند خدا‘‘ کہا۔ دنیا کے اسی دولت و ذخائر اور پیسوں پر قابض ہونے کے لیے صہیونیت نواز یہودیوں نے خفیہ طور پر سازشوں کا جال بچھا دیا۔ پسِ پردہ رہ کر دنیا بھر کے مالیاتی و اِقتِصادی نظام کو کنٹرول کرنے والے صہیونیت نواز بنکسٹرز کے ہتھیار خانے کا موثر ترین ہتھیار کاغذی کرنسی کو متعارف کروایا گیا۔ یہودی نژاد صہیونی بنکسٹرز اور پیسے کی شرارت کے درمیان اس مساوات کی 2 ہزار سال پرانی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا مضحکہ خیز ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس سے محفوظ رہے گا۔

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

صہیونی سود خور بنکسٹرز نے دو ملکوں کے حالات کو کشیدہ اور جنگ کا ماحول پیدا کرکے، خونریزی کا ختم نہ ہونے والا منظرنامہ پیش کیا، دونوں جانب کی قوتوں کو کاغذ کی فراڈ کرنسی کے ذریعے کنٹرول کرکے اصل زَر (سونا) اپنے قبضے میں کرنے کے لیے خونریزیوں کا نہ ختم ہونے والا بازار گرم کیا۔

راز دان جزو و کل از خویش نا محرم شد است
آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

(یعنی آدم اپنے سرمائے کی دوڑ کے پیچھے آدمیت کا قاتل بن چکا ہے) یہ فرسودہ نظام، تہذیب کے پردے میں غارت گری اور انسان کشی کا بڑا مجرم ہے۔ اب وہ دنیا بھر کے ملکوں کی معیشت کو اس طرح کنٹرول کرتے ہیں کہ جب چاہیں کسی ملک کی کرنسی کی قیمت کو گھٹا یا بڑھا دیں۔ گلف وار اول کے بطن سے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی پیدائش عمل میں لائی گئی، اسی طرح موجودہ عراق اور افغانستان کی جنگ اور عالَمی اِقتِصادی بحران کے بطن سے ’’نیا عالمی اِقتِصادی نظام‘‘ کے فتنے کو جنم دیا گیا۔ عالَمی اِقتِصادی معاملات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ عالَمی صہیونی سرمایہ داروں کا حامل صہیونی روتھ شیلڈ خاندان (Zionist Rothschild Family) (1760ء) جس نے امریکا سے لے کر جاپان تک بینکوں کا ایک گلوبل جال بچھا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ اور دنیا کے دیگر صہیونی خاندان مل کر عالَمی اِقتِصادی معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ 17ویں صدی سے اب تک اس خاندان نے کبھی کہیں ’’خسارے‘‘ کا سودا نہیں کیا۔ عالَمی اِقتِصادی خسارے یا بحران کا فائدہ بھی اسی عالَمی صہیونی اِقتِصادی گروپ ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ صہیونی بینکرز نے ہمیشہ دونوں جانب کنٹرول رکھ کر اپنی پوزیشن مستحکم رکھی ہے۔ صہیونی بینکرز کے فرنٹ مینس نے میڈیا کو بھی اپنے قبضے میں کر رکھا ہے۔ 2009ء میں میڈیا کے ذریعے یہ ذہن سازی کی گئی کہ دنیا کی اِقتِصادیات عالمی کرنسی کی متقاضی ہے، جس کے لیے ’’سنگل گلوبل کرنسی‘‘ کے شوشے کو چھوڑا گیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جن لیڈروں نے ان روتھ شیلڈ صہیونی بینکرز کے خلاف مقابلہ آرائی کی وہ دنیا کے لیے عبرت کا مقام ہوگئے۔ امریکی صدر ابراہام لنکن نے روتھ شیلڈ کے آگے سرنگوں نہ ہونے کی پاداش میں جان گنوائی، امریکی صدر میکنلے نے صہیونی بینک ’’فیڈرل ریزرو‘‘ کے قیام کی مخالفت کی، جان ایف کینیڈی نے ’’کینیڈی ڈالَر‘‘ نامی بل بنایا، امریکا صدر رونالڈ ریگن، عراقی صدر صدام حسین کا ڈالَر کی جگہ یورو کے ذریعے تیل فروخت کرنے کا فیصلہ، لیبیا کے معمر قذافی کا افریقن یونین بینک کی کوششیں، افغانستان و پاکستان کی قیادت اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

آج روسی صدر ولادیمیر پیوٹن شاید غیر محسوس طریقے سے ہی سہی صہیونی روتھ شیلڈ بینکنگ کی عالمی کارٹیل کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ پیوٹن نے اپنے ملک اور اردگرد کی ریاستوں کو اس دجالی بینکنگ نظام سے نجات دلانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’تم (مسلمان) روم سے اتحاد کرو گے‘‘۔ رسول اللہؐ نے ایک موقع سے فرمایا: ’’عنقریب تم رومیوں سے ایک پر امن صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑو گے جو تمہارے پیچھے ہے، اس پر فتح پاؤ گے اور غنیمت کا مال لے کر صحیح سالم واپس ہوگے یہاں تک کہ ایک میدان میں اترو گے جو ٹیلوں والا ہوگا، پھر نصرانیوں میں سے ایک شخص صلیب اٹھائے گا اور کہے گا: صلیب غالب آئی، یہ سن کر مسلمانوں میں سے ایک شخص غصّہ میں آئے گا اور اس کو مارے گا، اس وقت اہل روم عہد شکنی کریں گے اور لڑائی کے لیے اپنے لوگوں کو جمع کریں گے‘‘۔ (مشکوۃ المصابح، ابن ماجہ)۔ قرآن و حدیث میں مذکور روم آج کا روس ہے، حدیث شریف میں روم کی فتح سے مراد فقط روم شہر کی فتح نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا کی فتح مراد ہے روم کا لفظ محض عیسائیت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

ڈالَر کا عروج: دینار (سونا) اور درہم (چاندی) ایک طویل عرصے تک دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے معاشی و اِقتِصادی بین الاقوامی صنعت و تجارت پر غالب رہا ہے۔ دینار و درہم کے ساتھ 1450ء سے دنیا نے 6 بڑے ’ریزرو کرنسی‘ کے نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں، جن میں 1530ء تک پرتگال کی کرنسی بھی رائج رہی۔ اس کے بعد اسپین کی کرنسی کا بھی زور رہا۔ 17 ویں اور 18 ویں صدیوں میں نیدرلینڈز (ڈچ) اور فرانس کی کرنسیوں نے عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کرنے کی تگ و دو کی، جسے برطانوی سلطنت کے عروج نے سمیٹ دیا۔ پہلی جنگ عظیم تک برطانوی پاؤنڈ اسٹرلنگ زیادہ تر ممالک کی ’ریزرو کرنسی‘ ہوا کرتی تھی۔ 1924ء میں زوال خلافت کے بعد 1930ء کی دہائی سے امریکی معیشیت اور عسکری قوت نے اپنی دھاک جمانی شروع کر دی اور ڈالَر نے عالمی تجارت میں دینار و درہم کے ساتھ برطانوی پاؤنڈ کو پیچھے دھکیل دیا۔