حکمرانوں کی سفاکی اور عوام کا غصہ

708

نگراں وفاقی وزیرتوانائی نے نگراں وزیراطلاعات کے ہمراہ غریب مظلوم اور پسے ہوئے عام شہریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا ہے کہ چوری ختم ہونے اور بل ادا کرنے تک عوام کو سستی بجلی نہیں مل سکتی۔ وفاقی وزیر توانائی اور اطلاعات کا سفاکانہ اظہار خیال پورے حکمران طبقے کی ذہنیت اور پستی کا اشتہار ہے جو اپنے جرائم کا بار بھی ان لوگوں پر ڈال رہے ہیں جو حکمران طبقے کی ظالمانہ روش کی وجہ سے خوار ہو رہے ہیں۔ حکمران طبقہ اس لیے پریشان ہے کہ حیرت انگیز طور پر نگراں حکومت کے آتے ہی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ اس تحریک کا عنوان بجلی کے نرخوں میں ظالمانہ اضافہ اور اضافی بلوں کی ترسیل بھی ہے۔ گویا حکومتی اور ریاستی سطح پر عوام پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، حکمران طبقہ اس لیے بھی بظاہر مطمئن تھا کہ ملک میں سیاسی عمل مفلوج ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اپنی مفاد پرستی حرص و ہوس اور بدعنوانی میں لتھڑی ہونے کی وجہ سے استحصالی نظام کا حصہ بن گئی ہیں۔ میدان میں اس وقت قومی سطح پر جماعت اسلامی رہ گئی ہے۔ جس کی گزشتہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں ایک ایک فرد کی نمائندگی تھی اور عوام کے حق میں صرف ان کی ہی آواز بلند ہو رہی تھی۔ اس وقت تاجر، دکاندار اور عام شہری پورے ملک میں باہر نکل آئے ہیں اور اس حد تک مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ بجلی کا بل ادا نہیں کیا جائے گا۔ علامتی طور پر وہ بجلی کے بل بھی جلا رہے ہیں۔ یہ تحریک کسی قیادت کے بغیر چل رہی ہے، صرف جماعت اسلامی ہے جو پہلے سے عوام کے لیے میدان میں موجود تھی اور اپنی آواز بلند کر رہی تھی۔ تاجروں کی تنظیموں اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی پکار پر پورے ملک میں شٹر ڈائون ہڑتال ہو چکی ہے۔ حالات اتنے ناگفتہ بہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام اپنی احتجاجی تحریک کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، سراج الحق نے ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ اس تحریک کا آغاز جمعے سے ہو گا۔ انہوں نے بجلی کی قیمت میں اضافے اور مہنگائی کی مجموعی صورت حال کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ اس تحریک کے پہلے مرحلے پر چاروں صوبوں کے گورنر ہائوس کے سامنے پر امن احتجاجی دھرنا دیا جائے گا، عوام کے غصے اور احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے نمائشی اقدامات کا اعلان کیا جارہا ہے ماضی کی طرح ایک بار پھر مختلف منصوبوں کے نام پر خوش حالی کے خواب دکھائے جارہے ہیں، لیکن ان حکمرانوں نے عام لوگوں کو اس بدترین سطح پر گرا دیا۔ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے معاشی بحران کو اس نہج پر پہنچانے کے کلیدی اسباب دو ہیں، پہلا سبب سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بدلتی پالیسیاں ہیں جس نے ملک کو آزادی و خودمختاری سے آہستہ آہستہ محروم کر دیا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ حکمران طبقے کو بدعوانی کی چاٹ لگ گئی جس کی رفتار میں بدعنوان سیاسی طبقے کی شمولیت نے نظام حکمرانی کو خراب کر دیا۔ اس سلسلے کا آغاز نوے کی دہائی میں اس وقت ہوا جب ایک پاکستانی نژاد لیکن عالمی مالیاتی اداروں کے ملازم معین قریشی کو ’’نگراں وزیراعظم‘‘ کے طور پر درآمد کیا گیا تھا۔ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کے خاتمے اور معیشت کی تباہی گزشتہ 5 برسوں میں اپنے عروج پر پہنچ گئی، یہاں تک کہ پاکستان کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک پر حکومت پاکستان کا کنٹرول بھی ختم ہو گیا۔ بالآخر 14 جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایسا معاہدہ کر لیا جس نے رہی سہی آزادی و خودمختاری بھی ختم کر دی۔ جس وقت یہ معاہدہ ہوا تو حکمران جشن منا رہے تھے کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔ لیکن عوام کا بھرکس نکال دیا۔ اب حکومت کی طرف سے ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، بجلی چوری اور جرائم کے منتظم گروہوں کے خلاف کریک ڈائون کے اعلانات کیے جارہے ہیں۔ ایسے اعلانات ہم ماضی میں بھی سنتے رہے ہیں، اب ایک بار پھر اس کے نتائج دیکھ لیں گے۔ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ غریب عوام اب جن کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔ انہیں حکمران طبقے کی پرتعیش زندگی بھی نظر آرہی ہے۔ اس لیے وہ مہنگائی کے گھسے پٹے اسباب سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور آخر سوال یہ ہے کہ اقتصادی زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جو بحران سے محفوظ ہو۔ بجلی کے بل کا مسئلہ اس لیے کلیدی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اب لوگ اس قابل بھی نہیں رہ گئے ہیں کہ قرض ادھار کر کے بجلی کے بل ادا کر دیں۔ حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کو منصوبہ بنا کر بھیجا گیا ہے جس کے مطابق عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ حکومت کے نمائندے آئی ایم ایف سے کیا باتیں کرتے ہیں باخبر لوگوں کو اس کا علم ہے، لیکن بہانے اب مزید کام نہیں آئیں گے۔ حکومتی سطح پر مجموعی طرز عمل اس امر کی چغلی کھا رہا ہے کہ اسے آخرت پر یقین نہیں ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ ان تنازعات کے فیصلے روز آخرت خداوند قدوس کی عدالت میں ہوں گے اور آپ کے یہ محلات، بینکوں میں اربوں کی دولت کام نہیں آئے گی۔ زندگی بہت مختصر ہے کیا ہمارے حکمرانوں کے لیے توبہ کا وقت نہیں آیا۔ امریکا اور سرمایہ دارانہ نظام کے غلام حکمران طبقہ کس برتے پر اپنی خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے۔