مہنگائی !!!چھوٹے لوگوں کا بڑا مسئلہ

579

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مہنگائی ضرور ہے مگر اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں کہ پہیہ جام ہڑتال کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا بل تو دینا ہوگا جو معاہدے ہوئے ہیں وہ بہر صورت پورے کریں گے۔ جب نگران وزیر اعظم یہ بات کررہے تو ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے عوام پر ایک اور آسمانی بجلی گرائی جا رہی تھی۔ پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں اٹھارہ روپے چوالیس پیسے کا اضافہ کر دیا گیا۔ جس کے بعد پٹرول کی قیمت 305 روپے 36 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 314 روپے 84پیسے فی لیٹر ہوگئی۔ ابھی لوگ بجلی کی قیمتوں پر ہی دُہائیاں دے رہے تھے کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ملک کو ماتم کدہ بنا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک کے معاشی مسئلے کا حل مہنگائی میں اضافے کو بنادیا گیا ہے۔ اس طرح مہنگائی کا سارا بوجھ پاکستان کے عام آدمی کے کندھوں پر منتقل ہوتا ہے۔ یہ وہ عام آدمی ہے جس کا ملک کی معیشت بگاڑے اور ملک کو اس حال تک پہنچانے میں کوئی کردار نہیں۔ یوں پاکستان کا عام آدمی جرم ِ بے گناہی کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ کیسی حکومت اور کیسے منصوبہ ساز ہیں کہ جن کے پاس ملک کے اقتصادی مسئلے کا مہنگائی کے سوا کوئی حل نہیں۔ ملک کے معاشی مسائل کا متبادل حل موجود ہے مگر پاکستان کو اس حل کی طرف جانے نہیں دیا جارہا۔ وہ حل ایک ایسی جادونگری ہے جہاں قدم رکھنے والا پتھر کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ملک میں آئی ایم ایف اور امریکا کے کنٹرول کو تھوڑا سا مودبانہ انداز میں جھٹک کر معاشی بربادی کا حل نکا لا جاسکتا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر افغانستان کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کرکے اور روس اور چین کے ساتھ معاہدات کرکے آئی ایم ایف کے متبادل راستوں پر چلنے کی کوشش میں یہ حل پنہاں ہے اور یہی موجودہ دلدل سے نکلنے کا حل بھی ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگراموں کے چکروں میں پڑے رہنے سے اگلے پچاس سال میں بھی پاکستان کی معیشت سنبھلنے کا امکان نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کو سیاسی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بحال اور ٹھیک کرنا مقصود نہیں بلکہ پاکستان کی کلائی مروڑنا مقصد ہے سو آئی ایم ایف پاکستان کی کلائی مروڑ رہا ہے اور پاکستانیوں کی چیخیں ساتویں آسمان تک جا رہی ہیں۔ پاکستان جب امریکا کے مدار اور اندھی اطاعت کے حصار سے نکلنے لگا تھا تو مغربی ذرائع ابلاغ یہی بتا رہے تھے کہ مغرب کے پاس پاکستان کو رسی کھینچنے کا ایک ایک طریقہ باقی ہے اور وہ ہے آئی ایم ایف کے ذریعے اس پر سختی۔ پاکستان اس جھٹکے کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ بالخصوص بگرام ائر بیس خالی کرنے کے بعد مغربی میڈیا کے پاس یہ ایک متبادل حل تھا کہ پاکستان کی معیشت کو اس حد تک خراب کیا جائے کہ وہ گھنٹوں پر آجائے۔ آج یہ حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ اب لوگ برملا پوچھتے ہیں کہ عمران خان کو مہنگائی کی وجہ سے پی ڈی ایم نے ہٹایا تھا مگر پونے دوسال کا عرصہ ہوگیا وہ مہنگائی کیا ہوئی؟ وہ تو اوپر ہی اوپر جا رہی ہے۔ اسحاق ڈار کی مسیحائی کو کس کی نظر لگ گئی؟ وہ مس فائر ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنے لوگوں کے لیے ’’فرینڈلی فائر‘‘ ہو کر رہ گئے۔ تجربہ کاری اور پُرکاری کے دعووں کے سارے مینار زمیں بوس ہوئے۔ اب میاں نوازشریف کی تشریف آوری کو ہر مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے۔ پہلے اسحاق ڈار کو اسی طرح ’’ناگزیرِ اعظم‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ کئی سینئر اخبار نویس اسحاق ڈار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کورس کی صورت میں گاتے تھے کہ ’’چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘۔ اسحاق ڈار نوازشریف کی جیب میں پڑے ان کی معاشی پالیسی کا واحد ٹرمپ کارڈ تھے جو انہوں نے اپنی آمد کی کامیاب راہ ہموار کرنے اور رائے عامہ کے جذبات کے دھاروں کو موڑنے کی امید پر قبل ازوقت ہی پھینک دیا تھا۔ پاکستان ائر فورس کے جہاز پر ان کی آمد کا انداز ہی فاتحانہ اور شاہانہ تھا یہ میاں نوازشریف کی واپسی کی ریہرسل ہی تھی۔ اسحاق ڈار اپنا جادو دکھاتے تو شاید عمران خان کی مقبولیت پر قابو پایا جا سکتا تھا مگر میاں نوازشریف کی معاشی پالیسی کے یہ مدارالمہام ان کی نیک تمنائوں کے باوجود ناکام ہو گئے۔ اب ان کے ذخیرے میںاسحاق ڈار سے بڑا معاشی میزائل کون سا ہے جسے وہ آزمانا چاہیں گے؟۔ ایسے میں نگران وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام ہڑتال کی جائے۔

پاکستان میں اس وقت دو طبقات ہیں ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے جس کے آگے ریاست کے وسائل دست بستہ کھڑے ہیں۔ یوں لگتا ہے بابائے قوم نے یہ ملک اسی طبقے کی منفعت اور عیاشیوں کے لیے بنایا تھا اور دوسرا طبقہ عام آدمی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جس کا جی کرے اسی پر مہنگائی کا تازیانہ برساتا ہے۔ مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہو مراعات یافتہ اور بالادست طبقے کو فرق نہیں پڑتا۔ اس کے لیے ڈالر ایک ہزار روپے کا بھی ہو اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ مراعات یافتہ کلاس کی دولت مغربی بینکوں میں ہے اور روپے کی ناقدری سے ان کی جائدادوں کی قدر وقیمت بڑھا جاتی ہے۔ اس لیے واقعی ایک طبقے کو مہنگائی سے کچھ فرق پڑتا ہے نہ ان کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ طبقہ بلاشبہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ پہیہ جام کیا جائے۔ بڑے لوگوں کے لیے مہنگائی ایک چھوٹا مسئلہ ہے مگر اصل مسئلہ چھوٹے لوگوں کا ہے جن کے لیے مہنگائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دہاڑی دار مزدور، پرائیویٹ تنخواہ دار اور سفید پوش طبقے کے مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح پاکستان میں طبقات کے درمیان حالات ہی کا نہیں سوچ وفکر کا گہرا تضاد آگیا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کے لیے مہنگائی مسئلہ نہیں تو پسے ہوئے طبقے کے لیے مہنگائی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور آئے روز لوگ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ کر نہ صرف خودکشیاں کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ مار کر سکون حاصل کر تے ہیں۔ گویا کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں کہ اس کے لیے پہیہ جام ہڑتالیں کی جائیں۔ اگر واقعی مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تو پھر لوگ اس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور اس کے آگے ہتھیار ڈال کر جانیں کیوں دے رہے ہیں؟ ٹھیک ہے اپنی دولت پاونڈز میں رکھنے والوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں مگر ملک کی اکثریت کے لیے یہ مسئلہ ہے اور اس قدر بڑا مسئلہ ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر اپنی زندگی ہی کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ یہ تضاد ملک کے سوشل فیبرک اور حالات کے لیے اچھا نہیں۔ یہ ایک نئی طبقاتی تقسیم کی طرف قوم کا سفر ہے اور وہ ہے امیر اور غریب، ڈالروں میں دولت رکھنے والا اور پھٹی ہوئی جیب میں روپے رکھنے والا، دنیا کے بینکوںکے لاکروں میں مال رکھنے والا اور نقد جاں سمیت سب کچھ اس ملک میں رکھنے والا۔ اس وقت تک تو ریاست کے نزدیک مسئلہ اول کچھ اور ہے اور ریاست ڈیڑھ سال سے اسی مسئلے کو مینج کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کوشش میں اصل مسئلہ اول یعنی معیشت کا کباڑہ نکل رہا ہے۔ یوں نہ ملک کو سیاسی استحکام مل رہا ہے نہ معاشی حالات میں کوئی بہتری آتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دہشت گردی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔