دل دیاں گلاں

579

پیاری مائی! تو تو پاس نہیں پر سوچا آج اس قلم اور کاغذ کے ذریعے تجھ سے رائی جھائی کروں۔

بچپن میں غربت تو بہت دیکھی مگر محسوس کبھی نہ ہوئی۔ مجھے یاد ہے وہ دن بھی کہ جب ابا پوری شب مزدوری کر کے کندھے پر بوریاں اٹھا کر جہاز میں لاد کر پورے مہینے کی کمائی لائے تھے اس دن ابا کے ساتھ ایک امپورٹڈ ٹافی کا پیکٹ نیا پنکھا اور چند قیمتی اشیاء تھیں سچ بولوں تو اس حلال کی کمائی میں ایسی برکت تھی اور ایسی خوشی اور مزہ تھا جس کا نشہ آج تک اُترا ہی نہیں۔ آج بھی اگر لمحے کو وہ لمحات یاد آجائیں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔

پیاری مائی! وہ بچپن بھی کتنا پیارا تھا جس کی تپتی دھوپ بھی روح کو ٹھنڈا کر دیتی تھی اور صبح سویرے کا منظر اور پی ٹی وی پرلگی تلاوت اور دعا اور پھر پنک پینتھر کارٹون… جانے وقت میں اتنی برکت کیسے تھی کہ اسکول جانے سے پہلے یونیفارم پہنے پہنے اتنا دیکھنے سننے کو مل جاتا اور پھر اسکول جانے کا میلوں سفر پیدل… آج کل کے بچوں کو بھاری بیگ اٹھا کر وین تک پہنچنے میں ہی میلوں سفر محسوس ہوتا ہے۔

پیاری مائی! پوش علاقوں میں ہم لوگ کتنی آزادی سے شام کے وقت سائیکل چلا لیتے کونا کونا کھیلتے برف پانی کھیلتے سہیلیوں کے سنگ گھنٹوں میں صدیاں جیتے۔ کبھی روٹھتے تو منا لیتے۔ اگر میں کسی سکھی کی زیادتی کا سوال کر بھی لیتی آپ سے تو آپ کبھی نہ جاتی ہیں ان سے لڑنے اور اچھا ہی کرتی تھی اپ کہ خود ہی ہم دوستیں پھر دوستی کر لیتی اور یہ دوستیاں ہمیشہ کے لیے قائم رہتی۔

پیاری مائی! مجھے یاد ہے وہ دن بھی جب ہمارے کزن بیرون ملک کے دورے پر جا رہے تھے گھومنے کی غرض سے ہم کتنے خوش تھے ان کے لیے۔ خوابوں میں انہیں فضائی سفر کرتے ہوئے دیکھتے تو اٹھ کر بانچیں کھلی رہتی ایسے اترائے پھرتے جیسے ہم خود جا رہے ہیں کیا خوشی ہوتی تھی اپنوں کی خوشی کی اب تو اپنی خوشی کی بھی وہ خوشی نہیں۔

پیاری مائی! جون جولائی میں جب پھپھو گاؤں سے رکنے آتیں چھٹیاں شروع ہونے کے دس دن پہلے ہی سے ان کا انتظار کرنے لگتے اور جب وہ آتیں تو کتنا خوش ہوتے اور آپ بھی خوشی خوشی روز ان کے لیے کھانا بناتیں آج کل تو کوئی ایک دو دن کے لیے بھی آجائے تو خوشی کے بجائے جانے کیوں پریشانی ہونے لگتی ہے۔ شاید ہمارے معمولات متاثر ہوتے ہیں یا مہمانوں کے لیے بھیجے جانے والے رزق کا جو ربّ نے وعدہ کیا تھا اس کے بارے میں ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے یقینا یہ کہیں نہ کہیں ہمارے ایمان کی کمی کی نشانی ہے۔ دعا کیجیے گا اللہ ہمارے ایمان کو مضبوط کرے۔ آپ نے جو رشتوں سے محبت سکھائی وہ ابھی تک ہمارے دلوں میں قائم ہے خدا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنی اولاد کو رشتوں کی اہمیت اور محبت سکھائیں۔

مائی! آج سوچا کہ دل کا سارا احوال کہہ دوں دو کمرے اور صحن میں کتنے ہی لوگ سما جاتے تھے لیکن آج چار کمرے بھی پورے نہیں ہوتے اماں نہ جانے کیوں گھر تو ہمارے بڑے بڑے ہو گئے مگر دل چھوٹے۔ بہن بھائیوں سے ہونے والی نوک جھوک تو یاد ہے مگر یاد نہیں کہ کبھی شدید لڑائی ہوئی ہو۔آج کل تو ان بچوں کی لڑائی بھی ایسے ہوتی ہے جیسے امریکا اور افغانستان کی جنگ۔ اور شاید بڑوں کے دلوں میں بھی عداوتوں کا وہ سمندر ہے کہ جس کا زہر پانی میں ڈالا جائے تو سمندر بھی کڑوا ہو جائے۔

پیاری مائی! آپ صبح سویرے مشین لگا لیتیں کپڑے دھوتیں کھانا پکاتیں برتن دھو لیتیں اتنے سارے کام کرنے کے باوجود ابھی تک صرف دوپہر کا ایک ہی بجا ہوتا لیکن مائی میں تو ایک بجے تک اپنی ماسی کا انتظار کرتی رہتی ہوں آپ نہ جانے اتنی جلدی سارے کام کیسے کر لیتی تھیں۔

کبھی آپ کی اور ابا کی باضابطہ لڑائی دیکھی رنجشیں سمجھ میں بھی آئیں تو بہت سمجھدار ہونے کے بعد آج کل تو سب کے گھریلو حالات ایک طرف اور انٹرنیٹ پر بھی سب سے زیادہ میمز میاں بیوی کی لڑائی پر ہی بنائی جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں ہونے والی محبت سے بہت خوش ہوتا ہے اور لڑائی پر ناراض مائی تو بے فکر رہنا تیری تربیت میں دیا جانے والا صبر کا درس مجھے رٹا ہوا ہے۔

پیاری مائی! تجھ سے معافی بھی مانگنی تھی کہ ایک عید پر جب میں نے ضد کر کر اپنا پسندیدہ لباس خرید وایا تھا آج بھی یاد آتا ہے تو دکھ ہوتا ہے جانے تو نے کیسے میری وہ خواہش پوری کی ہوگی آج نئے لباسوں سے بچوں کی الماری بھری پڑی ہے مگر انہیں وہ کپڑے پھر بھی کم لگتے ہیں کہیں جانا ہو تو کہتے ہیں کہ یہ تو ہم نے پچھلی دفعہ بھی پہنا تھا آگ لگے اس انسٹا کو پوری دنیا کے نت نئے فیشن بچوں کو سکھا دیے ہیں۔

پیاری مائی! آپ لوگوں نے ہمیں ہمیشہ اساتذہ کا ادب سکھایا کچھ دن پہلے میں کچھ بچوں کو اپنے اساتذہ کے بارے میں عجیب عجیب سی باتیں اور عجیب سے نام لیتے ہوئے سنا تو بہت برا لگا۔ میں نے تو اپنی زندگی میں یہی تجربہ کیا کہ ماں باپ اور اساتذہ کی دعائیں عروج اور بلندیاں نصیب کرتی ہیں رب کریم ہم سب کو اپنے اساتذہ اور والدین کی تکریم کرنے والا بنائو۔

پیاری مائی! پہلے تو ہم سب سوتے وقت آیت الکرسی قل اور ساری دعائیں پڑھ کر سویا کرتے تھے لیکن آج کل موبائل میں ریلز اور دوسری چیزیں دیکھتے دیکھتے بنا دعائیں پڑھے کب آنکھ لگ جاتی ہے پتا ہی نہیں چلتا۔ بس مائی، باتیں تو بہت ہیں کرنے کو۔ جلد ملاقات ہوگی۔ پھر تفصیلاً بات ہوگی آپ کی دختر۔