معاملہ دو ترمیمی بلوں کا

646

گزشتہ دنوں صدر عارف علوی کے اس دھماکا خیز اعلان جس میں انہوں نے قوم کو بتایا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل دونوں پر دستخط نہیں کیے اور یہ کہ ان کے صدارتی آفس کے عملے نے ان کی حکم عدولی کے ساتھ ساتھ غلط بیانی بھی کی کہ صدر کے حکم کے مطابق دونوں بلوں کو واپس پارلیمنٹ آفس بھجوادیا گیا ہے۔ لیکن سسٹم کے اندر آئین و قانون کی پروا نہ کرنے والے عناصروں کے گٹھ جوڑ کے باعث دونوں بلوں کو نہ صرف قانون بنا دینے کی کوشش کی گئی بلکہ انہیں آفیشل گزٹ میں قانون کی حیثیت سے چھاپ بھی دیا گیا۔

دوسری طرف سیاسی اور قانونی طور پر اس معاملے پر متحارب گروہ بھرپور دلائل، مکالمے اور حتیٰ کہ گالم گلوچ بھی کر رہے ہیں لیکن اس تنازعے نے آرمی ترمیمی ایکٹ اور خاص کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے ترمیمی مسودوں پر غور کرنے کا شوق اہل ِ فکرو نظر میں مزید بیدار کردیا۔ ان حالات میں جب آئین و قانون اہل اقتدار کی جانب سے جب دل چاہا روند ڈالنے کا تناسب پہلے کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک تجاوز کرچکا ہے، ان قوانین پر گہری نظر رکھنا اور عوام کو اس کے بارے میں مطلع رکھنا اور ضروری ہوجاتا ہے۔ جب یہ بل پاس ہو رہے تھے تو پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس وقت بھی بعض اراکین ان قوانین میں موجود بعض شقوں پر اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کر ہے تھے جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کو کچھ ایسے اختیارات مل رہے ہیں جو بنیادی انسانی اور شہری حقوق کے خلاف ہیں اور انصاف کے مواقع فراہم کرنے کے مروجہ قاعدے کے خلاف ہیں۔

دنیا بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حکومت سے یہ مطالبہ جائز ہوتا ہے کہ انہیں باقاعدہ ایک مناسب با اختیار اور مربوط قانون دیا جائے جس کے تحت وہ عوام کے تحفظ اور جرائم کی روک تھام کی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے ادا کر سکیں۔ اس کے لیے مشکوک افراد کو گرفتار کر سکیں اور انہیں ایک قاعدے قانون کے تحت سزا دلوا سکیں۔ لیکن انسانی جبلّتوں، کمزوریوں اور منفی رویوں کو جانتے ہوئے، دنیا بھر میں ان اقسام کے قوانین میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ طاقت Check and Balances، حدود و قیود کے ساتھ ہو تاکہ کسی کے ساتھ جبر و ناانصافی نہ ہوجائے۔ کسی کی آزادی سلب کرکے اسے کسی الزام میں گرفتار کرنے کی اجازت دینا ایک بہت حساس اور بڑی ذمے داری کی بات ہوتی ہے جو بے گناہ لوگوں کے لیے نقصان اور بے حدپریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ قانون بنانے والوں کے لیے یہ بڑی ذمے داری اور تفکر کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ انہیں دونوں جانب کے لوگوں کی ضروریات و معاملات میں توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ حقوق اور فرائض کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ قوانین میں الفاظ اور جملوں کے استعمال میں انتہائی محتاط ہونا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی لفظ کوئی جملہ قانون کو غیر ضروری طور پر وسیع اور کہیں غیر ضروری طور پر محدود نہ کردے۔ دونوں صورتوں میں عدل و انصاف کے اصول و تقاضے مجروح اور پامال ہوتے ہیں، جس کا اثر کسی بے گناہ پر پڑ سکتا ہے اور اس کا نتیجہ دنیا میں نہ بھی بھگتنا پڑے لیکن اس کی پکڑ آخرت میں لازماً ہوگی۔ ظلم کے خوفناک نتائج کے حوالے سے شاید ہی کوئی انسان اور خاص طور پر مسلمان لا علم ہو۔

لیکن صورتحال کچھ یوں ہے کہ سابقہ پی ڈی ایم حکومت اس قدر خوفزدہ، مجبور اور معذور یا کسی غیظ و غضب کا شکار تھی کہ اس نے کسی قسم کی بھی جرأت تدبر اور حمیت کا مظاہرہ کیے بغیر ان بلوں کو ویسے ہی منظور کر لیا جیسے انہوں نے نیب ترمیمی بل اور دوسرے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بھرپور قوانین منظور کیے۔ پارلیمینٹ سے یہ بل کیسے منظور ہوگیا اس پر بحث کرنا اب صفحات اور وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے محض یہی بات بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان بلوں کو صرف بیس پچیس یا اس سے بھی کم ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ پاس کروا دیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی میں تھوڑا سا بھی ذمے داری کا احساس ہوتا، معاملے کا عوام پر اثر اور اس کی حساسیت کا پاس ہوتا تو صرف حاضری کی بنیاد پر ہی وہ ان مسودوں کو آگے بڑھانے سے رک جاتے۔ لیکن چلیں آگے بڑھتے ہیں اور آفیشل سیکرٹ قانون میں ترامیم کے مسودے پر ایک تجریاتی نگاہ ڈالتے ہیں۔

سب سے پہلے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ یہ قانون ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے نہایت اہم اور ضروری ہے اور یہ بھی کہ 1923 میں بنائے گئے اس قانون میں جدید دور اور حالات کے مطابق گاہے گاہے ترامیم کرنا بھی ازحد ضروری ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل، الیکٹرونک اور ڈیٹا کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں ہوشربا ترقیوں اور تبدیلیوں کے حوالے سے اس قانون میں بہت پہلے ترامیم کرلینی چاہیے تھی۔ لیکن شاید یہ وقت زیادہ مناسب اور سازگار ہو۔ بہت سارے وکلا اور ماہرین قانون کی رائے میں یہ قانون کئی جگہوں پر نہ صرف وضاحت طلب ہے بلکہ اسے حدود و قیود میں لانے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

اس قانون کے مسودے میں تو سب پہلے تو ’’دستاویز ات‘‘، ’’ممنوع جگہ‘‘ اور ’’دشمن‘‘ کی تعریف کو بہت وسیع کر دیا گیا ہے۔ جو بات سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ غیر تحریر شدہ دستاویز کیا ہوتی ہے جبکہ الیکٹرونک، ڈیجیٹل، Tangible or intangible instruments کے الفاظ بھی درج ہیں۔ لگ ایسا رہا ہے کہ خیالوں اور خوابوں کو بھی دستاویز تصور کیا جارہا ہے۔ بہرحال ’’غیر تحریر شدہ‘‘ کی ترکیب وضاحت طلب ہے۔

’’ممنوع جگہ‘‘ میں اب فوجی عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہر وہ عمارت آگئی ہے جس میں پاکستان کی محفوظ معلومات اور اثاثے ہوں جو پاکستان کی حفاظت اور مفادات کے لیے اہم ہوں۔ اب ان الفاظ کی قانون میں شمولیت کے بعد پارلیمنٹ، عدالتیں اور حکومت کی سول عمارتیں بھی اس قانون کی رو سے ممنوع جگہیں ہو سکتی ہیں جن میں بلا اجازت داخلہ تو دور کی بات، اس کے قریب جانا (یعنی approach) بھی جرم تصور کیا جاسکتا ہے۔

یعنی پاکستان میں حکومت کی جانب سے جیسا بھی ظلم ہو، مہنگائی ہو، زیادتی ہو اس پر پرامن احتجاج کا راستہ بھی اس قانون کی آڑ میں روکا جاسکتا ہے۔ عوام کسی جنگل اور صحرا میں احتجاج کرلے لیکن کسی حکومتی عمارت کے قریب آنے کہ کوشش نہ کرے۔ حالات و واقعات کے تناظر میں ریاست و حکومت کی پالیسی بھی یہی لگ رہی ہے۔

آفیشل سیکرٹ قانون میں دشمن کی صحیح تعریف کے ساتھ Non State Actor کا اضافہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اب یہ کیسے فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ کون سی نان اسٹیٹ ایکٹر تنظیم یا شخصیت ہے جو ملکی سلامتی اور مفادات کے خلاف ہے۔ اس تعریف میں تو بہت سے ادارے آجاتے ہیں۔ تو کیا معاملات صرف مقتدرہ کی پسندو نا پسند پر منحصر ہوں گے کیونکہ Wikipedia میں درج ہے کہ:

A non state actor (NSA) are organizations and /or individuals that are not affiliated with, directed by, or funded by any government.
The interests, structure, and influence of NSAs vary widely. For example, among NSAs are non profit organizations, labor unions, non governmental organizations, banks, corporations, media organizations, business magnates, people’s liberation movements, lobby groups, religious groups, aid agencies, and violent non state actors such as paramilitary forces (and armed resistance groups).

جب دشمن کی تعریف میں وسعت کی وجہ سے ابہام ہے تو پھر دشمن کا نام کسی کے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل میں ہونا بھی انتہائی مبہم، غیر موثر اور زیادتی کا باعث ہوسکتا ہے۔ راقم کی نظر میں قانون میں اس کی صاف و شفاف وضاحت ہونی چاہیے تاکہ قانون کا غلط استعمال نہ ہوسکے۔

راقم کی نظر میں سیکشن ۳ کی رو سے Offence یہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی احتجاجی نیت سے یا کسی غیر فوجی مگر حکومتی عمارت کے قریب بھی جائے گا تو وہ پبلک آرڈر کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ چاہے احتجاج کسی ایسے حکومتی اقدام کے خلاف ہورہا ہو جس نے سارا عوامی سکون درہم برہم ہی کیوں نہ کردیا ہو۔

سیکشن 6A کا اضافہ (جس میں دو بڑی ایجنسیوں کے کسی اہلکار کا نام منفی طور پرمنظر عام پرلانا جرم تصور کیا جائے گا) بے حد ضروری ہے لیکن ساتھ میں دوسرے ایسے قوانین کا بھی بننا اور منظور ہو کر عمل میں آنا ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے لیے اشد ضروری ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ اداروں کو ان کے ناجائز، غیر قانونی اقدامات پر قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ عدالتوں کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کے لیے ان کیمرہ سیشن رکھا جاسکتا ہے لیکن اداروں کو لا محدود، شتر بے مہار اختیارات نہیں دیے جاسکتے۔ اداروں اور عوام دونوں کو ایک دوسرے کے تجاوزات، ظلم و زیادتی سے تحفظ و سلامتی چاہیے۔ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ قوانین بہت سوچ سمجھ کر تفکر و تدبر کے ساتھ بنائے جائیں۔ رسول اللہؐ کے فرمان کے مطابق (مفہوم) لوگوں سے ایسے برتائو کرو جیسا برتائو تم خود اپنے لیے چاہتے ہو اور لوگوں کے لیے وہ پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔