مینڈیٹ اپنی جگہ مسائل حد سے گزر چکے

498

نگراں وزیراعظم کی جانب سے بجلی کے اضافی بلوں کے معاملے پر نوٹس لینے کے 48 گھنٹوں بعد بھی کسی قسم کے ریلیف کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ دو روز اجلاس ہوئے لیکن کسی قسم کی ریلیف کا اعلان نہیں کیا جاسکا۔ دوسرے روز بھی اجلاس میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ ابھی تک تو یہ خبریں ہیں کہ تجاویز تیار کی گئی ہیں منگل کے روز وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ دوسری طرف پہلے روز کے اجلاس میں وزیر اعظم انوار کاکڑ نے کہا کہ مینڈیٹ میں رہیں گے‘ جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ ابھی تک وہ مفت بجلی حاصل کرنے والے افسران اور اداروں کی تفصیل مانگ رہے ہیں۔ ان کے جذباتی جملے بڑے مشہور ہو رہے ہیں جیسے یہ ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی کو مفت بجلی ملے۔ لیکن وزیراعظم صاحب! عوام یہ جملہ لے جا کر بینک میں جمع نہیں کراسکتے۔ یہ اعلان بھی نمائشی نظر آتا ہے کہ وزیراعظم نے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے لیے اقدامات کی ہدایت کر دی ہے۔ اس اعلان کے باوجود عوام کو کم سے کم ریلیف بھی نہیں مل سکا۔ یہ حکمران یا معاملات چلانے والے طاقت ور ادارے اسے بچوں کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔ جس طبقے کے ہاتھ میں معاملات ہیں اسے غربت کی الف ب نہیں پتا۔ اسے ملازمت‘ تنخواہ‘ مہنگائی کا نہیں پتا۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ تعلیم کس طرح خریدی جاتی ہے اور انصاف کس طرح بکتا ہے۔ یہ طبقہ فوری یا طویل المدت ریلیف کیا دے گا۔ یہ سارے نمائشی الفاظ اب لوگوں کے جذبات کو مزید برانگیختہ کر رہے ہیں۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دو‘ چار دن گزار کر کچھ معمولی کمی کرکے جان چھڑا لی جائے گی لیکن ہر آنے والا دن ملک کے لیے تباہی کو قریب لا رہا ہے۔ تباہی یہ نہیں کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا یا ملک پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ پاکستان امریکی بلاک میں رہے گا یا چینی بلاک میں۔ بلکہ معاملات اب تیزی سے حد سے تجاوز کر رہے ہیں اور نگراں وزیراعظم اپنے میڈیٹ میں رہنے کی بات کر رہے ہیں۔ سارا جھگڑا مینڈیٹ ہی کا ہے۔ حکمرانوں کو کس نے مینڈیٹ دیا تھا کہ پاکستانی عوام کے سودے کریں سب نے صرف حکمرانی کا مینڈیٹ لیا لیکن ملک و قوم کا سودا کیا اور وہ بھی انتہائی ارزاں نرخوں پر صرف اپنے کمیشن یا عارضی مفاد کے لیے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی تھی لیکن عمران خان نے پہلے قدم پر خودکشی کر لی۔ باقی سب تو آئی ایم ایف کے پرانے پیرول والے ہیں ان سے کسی خیر کی توقع کیا ہو سکتی ہے۔ انوار الحق صاحب اگر مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں تو 90 روز میں انتخاب کرائیں اور رخصت ہو جائیں اور اگر عوام کی فلاح کے نام پر تین سے چھ اور چھ سے دس مہینے یا سال بھر حکمرانی کا کوئی خفیہ مینڈیٹ ہے تو ا سکو اپنے پاس رکھیں۔ اب لوگوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ان کو چاند بھی روٹی نظر آتا ہے اور ایک اور ایک بھی دو روٹی سمجھ میں آتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حکمران طبقہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے لیکن جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے اگر اس پر فوری ایکشن نہیں لیا گیا تو الیکشن اور مینڈیٹ سب دھرے رہ جائیں گے۔ اس صورت حال کا فائدہ وہ قوتیں اٹھائیں گی جن کو عوام مسترد کر چکے ہیں اور جنہیں ریاست ملک دشمن اور غدار وغیرہ قرار دے چکی ہے۔ ایسی صورت حال میں جس کی نشان دہی بار بار کی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم نے بہت واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ خدشہ ہے کہ بجلی پر احتجاج فسادات میں نہ بدل جائے اور یہ سب جانتے ہیں کہ فسادات کا ماہرکون ہے حالانکہ ایم کیو ایم بجلی کی تمام کمپنیوں کی شریک تمام معاہدوں اور بجلی مہنگی کرنے والے تمام فیصلوں کے وقت حکومت کا حصہ رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہیں ایسے بیان دیتے ہوئے بھی کوئی حیا نہیں آئی کہ جو کام انہوں نے کروایا ہے اس کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔ اب لوگ انہیں بھی پہچان چکے ہیں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی۔ اب انہیں تو مسترد کیا ہی جا چکا ہے لیکن اصل ذمے داری وفاقی حکومت کی ہے وہ فوری ایکشن کیوں نہیں لے پا رہی اور یہ جو بار بار مختلف حلقوں سے تین سو یونٹ پر ریلیف کی بات کی جارہی ہے اس کی کوی حیثیت نہیںتین سو یونٹ کتنے لوگ استعمال کرتے ہیں اور یونٹوں پر کنٹرول کس کا ہے۔ 80 گز کے مکان پر دودو‘ تین تین لاکھ کے بل آجاتے ہیں اور بجلی کے یونٹ پہلے سے کم استعمال کے باوجود بل پہلے سے زیادہ آتا ہے۔ اس سارے نظام کو تحفظ عدالتوں اور حکومتوں نے دیا ہوا ہے۔ اگر عدالتیں انصاف دینا چاہیں تو انگلیوں پر گنی جانے والی چیزیں ہیں۔ دو‘ چار چھ ماہ بعد فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کیوں لیے جاتے ہیں۔ انکم ٹیکس وصول کرنا کے الیکٹرک کا حق کیسے ہو گیا۔ ٹی وی لائسنس کے کتنے پیسے پاکستان ٹیلی ویژن کو ملے ہیں۔ سرکاری ٹیکس وصول کرنے کا اختیار پرائیویٹ کمپنی کو کس نے دیا۔ ایک دفعہ ادا شدہ بل پرچند ماہ بعد پھر اضافی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ مختلف اداروں کا ایک دوسرے کے واجبات نہ دے کر گردشی قرضوں میں اضافہ اور بحران پیدا کرنا کس کاکھیل ہے اسکو حکومت روکے گی یا عدالت۔ دونوں نہیں روکیں گے تو لوگ سڑکوں پر نکل کر وہی کریں گے جو کر رہے ہیں اور ابھی کچھ بھی نہیں ہوا اگر اس زیادتی اور ظلم کو روکانہیں گیا‘ کھلی زیادتی اور ناجائز ٹیکسوں کو ختم نہیں کیا گیا تو ملک میں جو ہنگامے ہوں گے ان کے بعد لوگ 9 مئی کو بھول جائیں گے۔انہیںروکا بھی نہیں جا سکے گا 9 مئی کو جو ہوا وہ غلط تھا لیکن عوام کے ساتھ جو ہو رہاہے آیا وہ درست ہے؟ کسی ملک میں ریاست عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کا کچومر نکالنے پر مصر رہے تو نتائج خراب ہی نکلتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر کہا گیا ہے کہ وزیراعظم 48 گھنٹے میں اعلان کریں گے۔ وزیراعظم کو ایک گھنٹہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جو موٹی موٹی باتیں ہیں ان پر پہلے ہی عمل کیا جاسکتا تھا۔ مینڈیٹ کا نام لینا بھی درست نہیں پاکستان میں کون مینڈیٹ میں رہتا ہے۔ پولیس‘ رینجرز‘ فوج‘ وزرا‘ ایم این ایز‘ حکومت‘ وزیراعظم‘ عدالتیں کون اپنے مینڈیٹ میں رہتا ہے یا اس کا درست استعمال کرتا ہے؟ اب باتوں کا نہیں فیصلے کا وقت ہے۔ اگر یہ وقتی عارضی اور نگراں حکمراں فیصلہ نہیں کرتے تو عوام اب خود فیصلہ کریں آنکھیں کھولیں ، دل کو وسیع کریں ، خود دیکھیں کہ ان کے ہر مسئلے کے لیے کون کھڑا ہوتا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ پوری قوم شخصیتوں کے سحر میں مبتلا ہے ۔ شخصیتوں کے سحر سے نکلیں اور حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں ۔