کیا ملک انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے؟

1606

پاکستان کی معاشی وسیاسی صورت حال زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ افراط زر کی شرح حالیہ برسوں میں مسلسل بڑھ رہی ہے، اگست 2023 میں 29.3 فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس صورتحال نے گھریلو بجٹ پرغیر معمولی دبائو ڈالا ہے جو بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کا باعث بنا ہے۔ پاکستان بھر کے عوام و تاجر برادری بجلی کے بھاری بلوں اور ٹیکسوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور حکومت سے بلوں میں شامل اضافی ٹیکس اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لوگ مہنگائی، بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشیاں اور خود سوزیاں کر رہے، میڈیا کو روتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم پر تو ہمارے ملک میں زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے،کھانا کھائیں یا پھر بجلی کے بل دیں۔ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں اور میرے گھر والے کب کے خودکشی کر چکے ہوتے‘‘۔ شہر قائد میں کے الیکٹرک کی ٹیم پر تواتر سے حملے ہورہے ہیں، بل نہ دینے کے لیے مساجد سے اپیلیں ہورہی ہے اور سر عام بجلی کے بل پھاڑے اور جلائے جارہے ہیں۔ راول پنڈی میں احتجاج میں شریک لوگ حکمرانوں کے گھروں میں داخل ہونے کی باتیں کررہے ہیں، تاجروں نے صاف اعلان کردیا ہے کہ کے الیکٹرک والے ماریکٹوں میں نہ آئیں ورنہ تصادم ہوگا۔ کراچی کے میں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’’کے الیکٹرک کیا ’’را‘‘ کے لیے کام کر رہی ہے؟‘‘ اس نوعیت کی صورت حال وطن عزیز میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے، صورت حال یہ ہے کہ صارفین مختلف دفاتر میں بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور کمپنی کے عام ملازمین بھی بے چینی محسوس کر رہے ہیں، اسلام آباد میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی نے باقاعدہ خط لکھ کر پولیس سے درخواست کی ہے کہ اس کے دفاتر پر پولیس کی نفری تعینات کی جائے۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تاجر برادری اور جماعت اسلامی کی قیادت میں مشترکہ مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے کئی اہم سڑکیں بلاک کر دیں اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ ملک میں درحقیقت جماعت اسلامی ہی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت ملک میں بھر نہ صرف عوام چھوٹے اور بڑے کاروباروں کے لیے ایک اہم چیلنج بن گئی ہے۔ کاروباری افراد بڑھتے ہوئے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جو ان کے کاروبار کو برقرار رکھنے اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت کو روک رہا ہے۔ بجلی کے بھاری بل، اضافی ٹیکسوں کے ساتھ، کاروبار پر غیر ضروری دبائو ڈال رہے ہیں، پیداواری صلاحیت کو روک رہے ہیں اور معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ کاروبار کسی بھی ترقی پزیر معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں، جی ڈی پی میں حصہ ڈالتے ہیں، اور ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پر بجلی کے بے تحاشا بلوں اور حد سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر ہم نہ صرف ان کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں بلکہ اپنی قوم کی مجموعی معاشی خوشحالی کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس وقت لوگ برملا کہہ رہے ہیں کہ اصل میں حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہی ظلم و ستم اور تباہی کی ذمے دار ہیں۔ لوگ قرض لے کر اور سامان بیچ کر بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اور ریاست کی سطح پر جھوٹ بولا جارہا ہے، چند ماہ پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو ریلیف دیا جا رہا ہے، جبکہ انہیں ایسا کوئی ریلیف نہیں ملا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ واپس لیا جائے، یہ ظلم اور ناانصافی ختم کی جائے، بجلی کے بلوں میں درجن بھر ٹیکسوں کو ختم کیا جائے، صارفین سے صرف وہ وصول کیا جائے جو وہ خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ ’’کے الیکٹرک میں موجود وائٹ کالر کرمنلز حکومت کی سرپرستی میں شہریوں کو لوٹ رہے ہیں اور خود اپنے ملازمین پر بھی ظلم کررہے ہیں۔ اگر حکومت نے کے الیکٹرک میں موجود ان وائٹ کالر کرمنلز کو نہ روکا تو حالات کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی۔ عوام کے الیکٹرک کے عملے سے الجھنا نہیں چاہتے، لیکن اس عملے کو شہریوں کی بجلی منقطع کرنے سے باز رکھا جائے۔ اگر عوام نے کے الیکٹرک کے وائٹ کالر کرمنلز کے دفتروں کا رْخ کرلیا تو حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا‘‘۔
جب کسی ملک کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے، تو یہ بڑے پیمانے پر غربت اور مایوسی کا باعث بنتی ہے۔ یہ انارکی کے لیے زرخیز زمین پیدا کر تی ہے، کیونکہ لوگ زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، ہمارے پاس صومالیہ کی مثال موجود ہے جہاں لاقانونیت، تشدد اور غربت نمایاں ہے۔ شام 2011 سے خانہ جنگی کی حالت میں ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غربت اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور ملک ایک ناکام ریاست بن چکا ہے، وینزویلا اس وقت انتہائی مہنگائی اور وسیع پیمانے پر غربت کے ساتھ معاشی بحران کی حالت میں ہے۔ اس بحران نے سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ یمن بھی 2015 سے خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔ جنگ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غربت اور بھوک پھیلی ہوئی ہے اور ملک قحط کے دہانے پر ہے۔ غربت اور مہنگائی کی وجہ سے انتشار پھیلنے والے ممالک کی یہ چند مثالیں ہیں اور بہت سے دوسرے ممالک بھی ایسے ہی چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ممالک قائم ہیں لیکن بدتر حالت میں ہیں جہاں انسانیت سسک رہی ہے اور ان سب کے پس منظر میں کسی نہ کسی حوالے سے آئی ایم ایف کا عنصر موجود ہے۔ بد قسمتی سے ہم بھی ایسی صورت حال میں داخل ہوچکے ہیں۔ جب گلی محلوں میں دن دہاڑے لوٹ مار اور سرکاری اداروں پر حملے ہورہے ہوں، سرکاری املاک کا جلائو گھیرائو شروع ہوچکا ہو، لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہوں، مساجد سے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کے علانات ہوں، جہاں قتل و غارت گری کے ساتھ، سرعام ڈاکے، چوریاں عام ہوں، ہر گلی محلے میں جرائم پیشہ گروہ کے جتھے بنے ہوئے ہوں، ایسے ملک میں جس کے ایک بڑے صوبے سندھ میں ڈاکو پولیس کی چیک پوسٹوں پر راکٹ لانچر سے حملہ کرتے ہوں اور پولیس کی طرف ہی سے یہ انکشاف سامنے آئے کہ کشمور میں تعینات کچھ پولیس افسران و اہلکار ان ڈاکوئوں کے گروپوں کی سہولت کاری کرتے ہیں۔ تو اس بدترین صورت حال کو انارکی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ ایسی انارکی، حکومتی و ریاستی رٹ کے خاتمے اور ایک معاشرے کے زوال کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔ انارکے پھیلنے سے لوگوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس سے انتشار کی صورتحال میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ملک کی صورت حال اچھی نہیں اسٹیبلشمنٹ سمیت پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام اور کاروباری برادری کے تحفظات اور شکایات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اقدامات کریں، بجلی کے بلوں پر عائد اضافی ٹیکس کو کم کر کے ریلیف فراہم کرے، مہنگائی کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔ پاکستان کے حالات سنگین ہیں لیکن امید پھر بھی ہے۔ اگر حکمران ضروری اقدامات کریں تو پھر ملک کو انتشار اور انارکی کی طرف جانے سے روکاجا سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو پھر یہ نہ سوچاجائے کہ ’’یہ تاج کبھی نہیں اچھالے جائیں گے، لوگ اب گلی گلی، محلہ محلہ اعلان کررہے ہیں کہ ’’تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں، اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں‘‘ تاریخ یہی ہے کہ کیونکہ جب عوام بپھرتے ہیں‘ سب تخت گرجاتے ہیں‘‘۔