جماعت اسلامی کا یوم تاسیس

1567

آج چھبیس اگست ہے، اقامت دین کے لیے امت مسلمہ کی ایک منفرد تحریک… جماعت اسلامی کا یوم تاسیس۔ آج سے 82 برس قبل برصغیر کے کونے کونے سے اسلام سے محبت اور اخلاص کا رشتہ رکھنے والے 75 افراد لاہور کے اسلامیہ پارک میں جمع ہوئے، ان سب کو وقت کے عظیم اسلامی مفکر اور مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے ماہوار جریدے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے اس اجتماع میں شرکت کی دعوت دی تھی، ان نیک نفس انسانوں نے غور و فکر کے بعد ایک ایسی جماعت کی تاسیس کا فیصلہ کیا، جو انسانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے کام کرے اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر ان کے خالق و مالک ، رب کائنات کی غلامی میں دینے کی جدوجہد کرے، اس جماعت کا نام ’’جماعت اسلامی‘‘ طے پایا۔ یہ ان نفوس قدسیہ کے اخلاص کا خمر ہے کہ 75 افراد سے سفر کا آغاز کرنے والا یہ قافلہ آج عالم گیر سطح پر اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے، اس کی دعوت کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں غلبۂ اسلام کی ایک جانی پہچانی تحریک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، برصغیر اور بعض دیگر ممالک میں یہ ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے اپنی پہچان رکھتی ہے جب کہ بعض دیگر ممالک میں کئی دوسرے ناموں سے معروف ہے تاہم ہر جگہ اپنے کردار اور افکار کی وجہ سے عالم باطل کے قلوب و اذہان میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے ایک طرف اگر یہ اخوت و محبت کی پیکر اور خدمت کے جذبہ سے سرشار ہے تو دوسری طرف باطل کے مقابل ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں:

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مومنین و مصلحین کے نقوش پا کی پیروی کرنے والی یہ تحریک دنیا میں خالق کائنات کی حاکمیت کا پرچم تھامے ہوئے ہے اور محسن انسانیت، رحمۃ اللعالمین حضرت محمدؐ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت سے نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے… وطن عزیز میں ’’جماعت اسلامی پاکستان‘‘ کے نام سے کام کرنے والی یہ تنظیم ملک کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں کئی لحاظ سے منفرد اور مثالی حیثیت کی حامل ہے اولین یہ کہ جمہوری طرز پر منظم ہے، جمہوریت کا نام تو تمام ہی جماعتیں لیتی ہیں مگر الا ماشاء اللہ، ملک کی کوئی بھی جماعت اپنے اندرونی ڈھانچے کو جمہوری اصولوں پر استوار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کم و بیش تمام جماعتوں میں شخصیت پرستی تنظیم کی بنیاد ہے، ہر جگہ قیادت نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ خاندانی قیادت ہی ان جماعتوں کی شناخت قرار پائی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں میں کوئی اعلیٰ مقصد کسی کے بھی پیش نظر نہیں، اس کے برعکس جماعت اسلامی میں نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر جمہوری انداز میں قیادت کا انتخاب مقررہ وقفوں کے بعد باقاعدگی سے ہوتا ہے اور ہر سطح پر قیادت کی تبدیلی ایک معمول کا عمل ہے، پھر حیران کن امر یہ بھی ہے کہ نفسا نفسی کے اس زمانے میں بھی جماعت اسلامی میں جاہ طلبی اور حصول مناصب کی کشمکش کہیں نظر نہیں آتی، اس بنیاد پر کوئی تنازعہ کبھی سامنے آیا ہے نہ ہی گروہ بندی جماعت میں اپنی جگہ بنا سکی ہے ورنہ ملک کی کون سے سیاسی و مذہبی جماعت ایسی ہے جو دھڑے بندیوں، تقسیم در تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے محفوظ رہ سکی ہو۔ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہی ہے کہ یہ اپنے قیام سے آج تک قیادت کے انتخاب میں ہر قسم کے جھگڑوں اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے محفوظ و مامون ہے اور بانی جماعت سے آج تک کسی امیر کی اولاد کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ جماعت اسلامی میرے باپ کی جاگیر ہے…!!!

وطن عزیز، اسلامی جمہوریہ پاکستان آج کل جن معاشی و معاشرتی، آئینی و قانونی اور اخلاقی بحرانوں سے دو چار اور بے حال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ بدعنوانی اور ذاتی اور گرو ہی مفاد پرستی ہی کو قرار دیا جا رہا ہے جو ہمارے نظام میں سرطان کی طرح سرایت کر چکی ہے، ہر شعبہ حیات میں رشوت و بے ایمانی اور بددیانتی کا دور دورہ ہے، ہماری سیاسی و مذہی جماعتوں کے قائدین کے خلاف بھی بدعنوانی، کمیشن اور کرپشن کے بے پناہ الزامات سامنے آتے رہتے ہیں، خود یہ رہنما بھی ایک دوسرے پر قومی خزانے کی لوٹ مار کے الزامات زور شور سے عائد کرتے نہیں تھکے یہ الگ بات کہ جب مفادات کا تقاضا ہو تو ایک دوسرے سے گلے ملنے اور اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ان رہنمائوں کے اس طرز عمل کا پھل ہے کہ ان قائدین کے ذاتی اور خاندانی اثاثے دن دگنی رات چوگنی رفتار سے بڑھتے چلے گئے ہیں جب کہ ملک بے پناہ وسائل کے باوجود قرض در قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اس معاملے میں بھی جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج تک اس کے وابستگان پر بدعنوانی کا کوئی دھبہ نہیں لگایا جا سکا اپنے پرائے سب جماعت کی امانت و دیانت کا برملا اعتراف کرتے ہیں حتیٰ کہ ملک کی عدالت عظمیٰ کے سامنے جب امانت و دیانت کے معیار کا معاملہ پیش ہوا تو اس کے منصف اعلیٰ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اس معیار پر صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہی پورے اترتے ہیں، اس کے علاوہ بھی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے جماعت اسلامی کی دیانتداری کی گواہی اکثر سامنے آتی رہتی ہے، وطن عزیز میں جماعت اسلامی کے لوگوں کو مختلف مناصب پر کام کرنے کا کئی بار موقع ملا ہے، قوم نے انہیں ہمیشہ کھرا پایا ہے اور عوام کی خدمت کی قابل تقلید مثالیں جماعت کے ان رہنمائوں نے پیش کی ہیں جماعت اسلامی کے وابستگان نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کیا ہے کہ قوم کے محروم، غریب اور بے بس لوگوں کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، کسی اختیار و اقتدار کے بغیر جماعت کے کارکنوں نے ہر ارضی و سماوی آفت کے موقع پر مذہب و نسل کی تفریق کے بغیر مصیبت زدگان کی بے لوث مدد کی ہے اس کے علاوہ غریب و لاچار، مستحق و بیمار اہل وطن کی خدمت کے لیے ملک بھر میں ہسپتال، سکول، سفری شفا خانے، دینی مدارس، بلڈ بنک، میت گاڑیاں، ایمبولینس سروس اور نا جانے کون کون سے منصوبے جماعت اسلامی کے لوگ اپنے محدود وسائل کے باوجود چلا رہے ہیں۔ اب یہ قوم کی باری ہے کہ وہ محض زبانی جماعت کی ان خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے آنے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کرے تاکہ لوٹوں اور لٹیروں سے نجات ملے، ملک و قوم کے مسائل حل ہو سکیں اور عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے۔