حالات، اداراتی زوال اور معاشرتی طبقات

763

اگر معمولی درجے کی بھی علمی دیانت اور شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے تو کسی بھی صحافی اور تجزیہ کار کو یہ بیان کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان معاشی صورتحال، سیاسی رواداری کا حال، انسانی حقوق اور سماجی عدل کے پاکستانی معیارات اس سطح پر نہیں ہیں جو آج سے پندرہ سو لہ مہینے پہلے تھے۔ حالات پہلے بھی بہت خراب تھے۔ لیکن بتدریج گرنے اور Nose Dive میں فرق ہوتا ہے۔ معیشت کی بات کی جائے تو ۱۳ فی صد مہنگائی اور ۳۰ فی صد مہنگائی میں، ۶ فی صد شرح ترقی اور صفر عشاریہ ۳ فی صد ترقی میں، ۵ فی صد بے روزگاری اور ۸ فی صد بے روزگاری میں، ۱۷۰ روپے پٹرول اور ۲۷۰ روپے پٹرول میں، ۵۵ روپے کلو آٹا اور ۱۵۰ روپے کلو آٹے میں، ۶۱ روپے فی یونٹ بجلی اور پچاس روپے فی یونٹ بجلی میں اور ۱۸۰ روپے کے ڈالر اور ۲۹۰ روپے کے ڈالر میں بہرحال واضح فرق ہوتا ہے۔ لیکن معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہماری سیاست، ہمارے ادارے اور ہمارے معاشرتی طبقات پرو (Pro) اور اینٹی (Anti) عمران کے حوالے سے ایسے تقسیم ہو چکے ہیں یا بغیر کسی سنجیدہ کوشش، پتا نہیں کس روشن مستقبل کی امید لگائے بیٹھے ہیں یا مملکت خداداد میں کسی کے خوف کا ایسا شکار ہیں کہ سول اداروں اور معاشرتی طبقات کی طرف سے پاکستان کی انتہائی دگرگوں اور خوفناک صورتحال پر آوازیں اور احتجاج برائے نام ہی ہے۔

خبرو اخبار، نشر واشاعت اور صحافتی برادری کی بات کی جائے تو ۹۰ فی صد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اس بھیانک مہنگائی اور اس کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات پر موثر بات اور موجودہ بندوبست پر زبان کھولنے کو تیار نہیں۔ پچھلی حکومت میں ان کے رویے مختلف تھے۔ اسی طرح صرف قوانین ہی نہیں بلکہ آئین ِ پاکستان جو قوانین کا ماخذ ہوتا ہے، اس کی جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے بے توقیری اور پامالی کی جارہی ہے کہ مشرف کے دور کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس پر واشگاف انداز میں بات ہورہی اور نہ احتجاج ہورہا ہے۔ وکلا برادری نے کچھ کانفرنسیں اور کنونشن منعقد کیے لیکن صحافتی برادری بالکل ہی خاموش ہے۔ واضح رہے بندوبست کرنے والوں نے عمران خان کے ایک وکیل عزیر بھنڈاری صاحب کو بھی گرفتار و اغواء کرکے کہیں منتقل کیا لیکن وکلا برادری کی ایک بڑی تنظیم کے بروقت احتجاج اور نتائج کی دھمکی پر ہاتھ ہٹا لیا گیا۔ اس وجہ سے اس وقت وکلا ہی ہیں جو پھر بھی کسی حد تک آزادانہ کام کر رہے ہیں۔

آئین و قانون پر عمل داری میں تیز رفتار گراوٹ اور معیشت کی تباہی پر ٹھوس اعداد وشمار اور سادہ و منطقی مثالوں کے ساتھ بات کرنا اور تجزیہ کرنا ہر باشعور دانشور، عالم اور صحافی کا کام ہونا چاہیے۔ کچھ معاملات نظریاتی اور سیاسی جھکائو سے بلند اوربالا تر ہوتے ہیں۔ لیکن ہو یہ گیا ہے کہ اگر کوئی آئین کے مطابق بروقت شفاف انتخابات کی بات کر دے تو پی ڈی ایم والے خاص طور پر نون لیگ والے ناراض ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آئین و قانون کی بالادستی کی بات کی جائے تو اسے بھی مخصوص گروپ اپنے اوپر ظلم سمجھتا ہے حالانکہ معاشرے کے باشعور اور با ضمیر طبقات آئین و قانون کی بالادستی ہر قیمت پہ چاہتے ہیں چاہے ان کا جھکائو کسی بھی پارٹی کے ساتھ ہو۔ زیرک، فہیم و حکیم لوگ جن کے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کا اندہناک واقعہ رونما ہوا، سیاست و حکومت کے اصول و قواعد کو بار بار ٹوٹتا بالکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ حکومت کا مخالفین پر کریک ڈائون ایک حد سے زیادہ بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر آئین پاکستان کے مطابق ملک کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حالت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ خاموش رہنے والے یا تو وہ لوگ ہیں جو وقت کی نزاکت اور صورتحال کی سنگینی سے بے پروا ہوکر اپنی پوزیشن، اپنی مسند و کرسی، اپنے کاروبار و ملازمت و ماحول میں مست ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں خوف و کمزور ی کی وجہ سے ڈرے سہمے ہوئے ہیں اور کسی بھی سطح کا کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔

ڈکٹیٹروں کے دور میں جب آئین معطل ہوتا ہے تو باشعور سیاسی و علمی گروہوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور جمہوری روایات کا حصہ ہی نہیں ہے اس لیے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیا کیا چیزیں ریورس (Reverse) کرنی ہیں۔ جیسے ۱ٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مشرف کی طرف سے کی گئی تمام جبری آئینی تبدیلیوں کو ختم کیا گیا۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ اس مرتبہ ’’جمہوری‘‘ دور میں ایسی ایسی روایات اور نظائر قائم ہوئے ہیں کہ اگر ان کا اعادہ کیا جاتا رہا تو پاکستان کا باقی ماندہ وجود بھی انتہائی خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔ دو صوبوں یعنی آدھے سے زیادہ پاکستان میں عدالتی احکامات کے باوجود الیکشن نہیں کرائے گئے۔ غیر منتخب، انجانے لوگ جو صرف شفاف انتخابات کرانے آئے تھے، انتخابات کے علاوہ ہر کام کر رہے ہیں۔ عدالت کے سامنے بچوں جیسے ڈرامے اور بہانے کیے گئے اور ساتھ میں سڑکوں اور پارلیمنٹ میں بدمعاشوں جیسی دھمکیاں دی گئیں۔ اگر صرف اسی عمل پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس سے پاکستان کی فیڈریشن کو آنے والے دنوں میں کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔ نگران حکومتوں کے آئینی اور اخلاقی کردار میں بھی بلا کا زوال آیا۔ انہوں نے وہ کام کیے جو ڈکٹیٹر کے ادوار میں بھی نہ ہوئے۔ کم از کم سیاسی مخالفین کے گھروں پر بکتر بند اور ہیوی مشینری سے کبھی دھاوا نہیں بولا گیا تھا۔ پولیس، ایف آئی اے اور نیب کے کردار تو چلیں ہردور میں ہی عجیب و غریب رہے ہیں لیکن وہ مقدمات جن کو اوپن اینڈ شٹ کہا جاتا تھا اس میں ایسے بریت کی گئی اور سارے ثبوت اچانک ایسے بے قدر ہوئے جیسے سو روپے کا نوٹ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ نیب قانونی طور پر حکومت کو رپورٹ نہیں کرتا۔ لیکن اکثر و بیش تر خفیہ قوتوں کی نگرانی میں ہوتا ہے اور نیب چیئر مین اگر Compromised نہ ہو تو زیادہ دیر تک کھیل کا حصہ نہیں رہ پاتا۔

کچھ تجزیہ کار اور دانشور دوست یہ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا تھا پی ٹی آئی والے زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ ایسا کہنا ایک سیر وزن کو ایک من کے برابر کہنے کے مترادف ہے۔ دلیل کے طور پر ذیل میں کچھ واقعات اور حالات درج کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں راقم کا خیال ہے کہ ان کے ذریعے ڈھٹائی، ہٹ دھرمی، آئین و قانون شکنی کی نئی مثال اور روایت قائم کی گئی۔

۱۔ گو کہ مرکز میں تحریک عدم اعتماد کا اس انداز میں ہونا پاکستان میں کوئی بڑی بات نہیں ایسا سینیٹ کے الیکشن میں کئی بار ہوا لیکن پنجاب میں جو پتلی تماشا چلتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آئین کے واضح الفاظ کہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹوں کا فیصلہ کرے گا، اس کے باوجود اسپیکر پنجاب اسمبلی نے (جس کو پی ٹی آئی نے ہی اسپیکر بنوایا تھا) اسکرپٹ پر کمال ڈھٹائی سے عمل کیا۔ معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کو بیچ میں آنا پڑا جس نے آئین کے الفاظ کے مطابق معاملے کا فیصلہ کیا گو کہ اپوزیشن نے اس سادہ سے کیس پر بھی فل کورٹ فل کورٹ کا راگ الاپا۔ (جاری ہے)