پاکستان پر اسلام کا پہلا حملہ

985

دنیا میں پاکستان سے زیادہ بدقسمتی ریاست کوئی نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ اس اعتبار سے اسلام پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس کا تشخص ہے۔ اس کی روح ہے اور دنیا کی ہر ریاست اپنے نظریے، اپنے تشخص اور اپنی روح کا دفاع کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اسلام بے یارو مددگار ہے۔ اس کے دفاع کے لیے نہ کوئی جرنیل متحرک ہوتا ہے نہ فوج کو اس سلسلے میں کوئی فکر لاحق ہوتی ہے۔ نہ کوئی حکومت اس سلسلے میں کچھ کرتی ہے۔ چناں چہ پاکستان کے اخبارات میں آئے دن ملک کے نظریے پر خوفناک حملے ہوتے رہتے ہیں۔ جاوید قاضی روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ہیں اور انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں قرار داد مقاصد کو پاکستان پر اسلام کا پہلا حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے ’’ہم نظریاتی ریاست نہیں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’افغانستان کے داخلی مسائل، ہماری ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے لگے، ایک نیا بیانیہ بننے لگا، اسی طرح سے کشمیر کے حالات بھی ہمارے اوپر اثرات رکھتے تھے اور پھر ہم تو مجاہدین بنانے کی فیکٹری بن گئے۔ ہم وہ قوم تھے جن کے پاس کانگریس کی طرح کوئی منظم اور مضبوط پارٹی بھی نہ تھی۔ قرارداد مقاصد کا پیش ہونا پہلا وار تھا، ہمارے فطری ارتقائی عمل پر۔ قرار داد مقاصد کا پیش کیا جانا دراصل اس ملک کو آئین نہ دینے کا بہانہ تھا اور اس سے ہم نے جان تب چھڑوائی جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا، ایک بہت بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور اس ملک کے ہر فیصلے پر امریکا کی اجارہ داری تھی، جنرل ایوب اس ملک پر مسلط کیے گئے امریکا کے آشیرواد سے، پھر جنرل یحییٰ کو لایا گیا، پھر بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا، ضیا الحق کو امریکا کے ایما پر لایا گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے بعد بالآخر ان کو بھی روانہ کردیا۔ ہاں، مگر اس جنگ سے پاکستان میں انتہا پسند طبقہ بہت مضبوط ہوگیا۔
اپنی تاریخ کو ہم نے مسخ کردیا جو اس سرزمین پر حملہ آور ہوا، اس کو ہمارا ہیرو بنایا گیا۔ یہ تمام چیزیں ایک منظم ایجنڈے کے تحت کی گئیں‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 16 جولائی 2023ء)
روس کا کمیونسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک تھا۔ اس انقلاب کے دو ہیرو تھے، لینن اور ٹروٹسکی۔ لینن قائد انقلاب تھا اور ٹروٹسکی مارکسزم کا سب سے بڑا جاننے والا۔ چناں چہ ٹروٹسکی نے جب یہ دیکھا کہ لینن مارکسزم کی حقیقی تعبیر سے انحراف کررہا ہے تو اس نے لینن سے اختلاف کرنا شروع کیا۔ لینن نے اس اختلاف کو بغاوت قرار دیا اور وہ ٹروٹسکی سے سخت ناراض ہوگیا۔ ٹروٹسکی کے اختلافات نے شدت اختیار کی تو لینن ٹروٹسکی کا دشمن ہو گیا۔ لینن نے ٹروٹسکی کو انقلاب دشمن قرار دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹروٹسکی کو روس سے فرار ہونا پڑا۔ لیکن لینن نے ٹروٹسکی کو معاف نہیں کیا۔ اس نے روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کو ٹروٹسکی کے پیچھے لگادیا اور بالآخر کچھ عرصے بعد کے جی بی نے ٹروٹسکی کو تلاش کرکے قتل کردیا۔ لینن ٹروٹسکی کو برداشت کرلیتا تو اس سے کمیونزم اور روس دونوں کو فائدہ ہوتا اور روس میں کمیونزم سے انحراف کی وہ صورت پیدا نہ ہوتی جس نے بالآخر کمیونزم کو دنیا سے فنا کردیا مگر لینن قائد انقلاب تھا اور اس کے نزدیک ٹروٹسکی نظریے سے باغی ہوگیا تھا۔ چناں چہ لینن نے ٹروٹسکی کو ایک دن بھی برداشت نہ کیا۔ گورکی بھی روس کا عظیم ادیب تھا۔ وہ بھی لینن سے اختلاف رکھتا تھا۔ چناں چہ لینن نے ایک بار گورکی کے بارے میں کہا تھا کہ جب دنیا عظیم کمیونسٹ انقلاب کا جشن منائے گی تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ گورکی کا ذکر کن الفاظ میں کرے گی۔ گورکی نے کہا کہ اگر انقلاب کا جشن منانے والے انسان ہوں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ میرا ذکر احترام سے کریں گے اور اگر وہ انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ روس کا ایک اور عظیم ادیب بورس پیسترنیک روس کی کمیونسٹ اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف رکھتا تھا۔ بورس پیسترنیک کے ناول ڈاکٹر ژواگو پر اُسے ادب کا نوبل انعام دیا گیا مگر روس کی کمیونسٹ اسٹیبلشمنٹ ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس نے بورس پیسترنیک کو ملک کے اندر نظر بند ہی رکھا۔
ایزرا پائونڈ امریکا کا شاعر اعظم ہی نہیں نقاد اعظم بھی تھا۔ وہ ٹی ایس ایلیٹ جیسے انگریزی کے عظیم شاعر کا استاد تھا۔ اس نے ایلیٹ کی نوبل انعام یافتہ نظم ’’دی ویسٹ لینڈ‘‘ ایڈیٹ کی تھی۔ مگر ایزرا پائونڈ ایک بار اٹلی گیا تو اس نے مسولینی اور اس کے نظام کی تعریف کردی۔ بس اتنی سی بات پر امریکی سی آئی اے ایزرا پائونڈ کے پیچھے پڑ گئی اور ایزرا پائونڈ کی جان کے لالے پڑ گئے۔ چناں چہ ایلیٹ اور کئی ممتاز ادیبوں نے مل جل کر پائونڈ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ علاج کی غرض سے نفسیاتی اسپتال میں داخل ہوجائے تا کہ سی آئی اے کو باور کرایا جاسکے کہ پائونڈ نے جو کچھ کہا ہے وہ نارمل ذہنی و نفسیاتی حالت میں نہیں کہا۔ چناں چہ پائونڈ نے اپنی زندگی کے کئی برس پاگل خانے میں گزارے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا ایک سیکولر اور لبرل ملک تھا اور امریکا یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اس کا سب سے بڑا ادیب فسطائی نظریات کی تعریف کرکے امریکا کی نظریاتی بنیاد پر حملہ کرے۔
گاندھی جدید ہندوستان کا باپ تھا۔ ہندوستان اسے دیوتا کی طرح پوجتا تھا۔ ہندو اسے ’’مہاتما‘‘ یا عظیم روح کہتے تھے۔ گاندھی واد ہندوستان میں ایک فلسفے کی حیثیت سے پڑھایا جاتا تھا۔ مگر گاندھی نے قیام پاکستان کو قبول کرلیا۔ بھارت کی تقسیم پر آمادگی ظاہر کردی۔ چناں چہ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کردیا۔ نتھورام گوڈسے ایک فرد نہیں تھا۔ وہ ایک ذہنیت کا نام تھا۔ یہ ذہنیت اکھنڈ بھارت اور تمام مذاہب پر ہندوازم کی بالادستی پر یقین رکھتی تھی۔ چناں چہ بھارت میں بی جے پی کی مقبولیت کے بعد نتھورام گوڈسے بھارت کا ہیرو بن کر ابھرا ہے۔ چند سال پہلے ممبئی کے ایک تھیٹر میں نتھو رام گوڈسے پر ایک ڈراما اسٹیج کیا جو مہینوں چلتا رہا۔ اس طرح انتہا پسند ہندوئوں نے نظریے سے انحراف کرنے والے گاندھی کو ولن اور نتھورام گوڈسے جیسے قاتل کو ہندوستان کا ہیرو بنا دیا ہے۔
نوم چومسکی اس وقت دنیا کے سب سے بڑے لبرل دانشور ہیں۔ مگر وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ انہیں مغرب کی توسیع پسندی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس نظریاتی اختلاف کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا سمیت پوری مغربی دنیا نے نوم چومسکی کو اپنے مرکزی ابلاغی دھارے سے الگ کیا ہوا ہے۔ چناں چہ آپ نے کبھی سی این این، بی بی سی ورلڈ، فاکس نیوز اور اے بی سی نیوز پر نوم چومسکی کو طلوع ہوتے نہیں دیکھا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ اسرائیل میں کوئی شخص کھڑا ہوا ہو اور اس نے اسرائیل کے بنیادی نظریے کی نفی کی ہو۔ چین کے تیان من اسکوائر میں لاکھوں لوگ کمیونسٹ نظام کے خلاف احتجاج کرنے جمع ہوگئے تھے۔ چین نے انہیں اپنے نظریے کا باغی خیال کیا اور چینی حکومت نے ان پر ٹینک چڑھادیے اور مغربی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک رات میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ مگر چین نے اپنے نظریے کے خلاف بغاوت کو قبول نہ کیا۔
نظریہ تو بڑی چیز ہے دنیا میں کوئی ادارہ کوئی حکومت اور کوئی سیاست دان اپنی ذات پر حملہ قبول نہیں کرتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ 9 مئی کے واقعات پر ہمارے جرنیل کتنا مشتعل ہیں۔ حالاں کہ 9 مئی کے روز ریاست اور اس کے نظریے پر نہیں چند فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے۔ جنرل ایوب جب تک اقتدار میں رہے اپنے حریفوں کی ناک میں دم کیے رہے۔ قائداعظم کی بہن اور مادر ملت فاطمہ جناح ان کی سیاسی حریف بن کر ابھریں تو جنرل ایوب نے ان کو بھی نہ بخشا۔ ان کے خلاف قومی اخبارات میں نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے گئے جن پر فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ 1971کے انتخابات کے بعد بنگالی اپنے حق حکومت پر اصرار کررہے تھے۔ جنرل یحییٰ اور فوج نے اس حق حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے الٹا بنگالیوں پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ بھٹو جب تک اقتدار میں رہے اپنے حریفوں کو مرواتے، جیل میں ڈالتے اور انہیں تشدد سے گزارتے رہے۔ جنرل ضیا الحق نے بھٹو سے خوف زدہ ہو کر انہیں تختہ دار تک پہنچادیا۔ انہوں نے اپنے حریفوں کو جیلوں میں ٹھونسا۔ ان پر تشدد کرایا۔ آج شریف اور بھٹو خاندان عمران خان سے ذاتی اختلاف کی وجہ سے عمران خان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
اس تناطر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ہرچیز مقدّس ہے۔ پاکستان میں جرنیل مقدس ہیں۔ فوج مقدس ہے۔ اس کی تنصیبات مقدس ہیں۔ سیاسی خاندان مقدس ہیں۔ سیاست دان مقدس ہیں۔ عدلیہ مقدس ہے۔ لیکن اگر مقدس نہیں تو ملک کا نظریہ۔ چناں چہ جس کا جب دل چاہتا ہے ملک کے نظریے پر چڑھ دوڑتا ہے۔ جاوید قاضی نے بھی یہی کیا ہے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ قرار داد مقاصد اس بات کا اعلان تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور اسلام ہی پاکستان کا نظریہ ہوگا۔ مگر جاوید قاضی نے اسے پاکستان کے ارتقائی عمل پر پہلا حملہ قرار دیا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے اور دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دو قومی نظریہ یا اسلام نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ چناں چہ قرارداد مقاصد پاکستان کے ارتقائی عمل کو روکنے کی سازش نہیں تھی بلکہ وہ پاکستان کی سمت سفر متعین کرنے کی ایک کوشش تھی۔ لیکن جاوید قاضی اس قرار داد کو ایک سازش کی طرح پیش کررہے ہیں۔ جاوید قاضی کا اصرار ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست نہیں ہے حالاں کہ ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے بھی پہلے ایک نظریاتی ریاست تھا۔ ملک کا موجودہ آئین قومی زندگی کے ہر دائرے میں اسلام کی بالادستی کی ضمانت مہیا کرتا ہے۔ یہ بات بھی اس امر کا اظہار ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔