گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹاکر

634

صاحبو! وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر الیکشن کی آمد آمد کا شور ہے۔ شہباز حکومت کب جارہی ہے؟ نگران سیٹ اپ کب آرہا ہے اور کتنے مہینوں کے لیے آرہا ہے؟ الیکشن نومبر میں ہوں گے یا دو چار ماہ کا مزید التوا ہوجائے گا؟ نگراں وزیراعظم کے لیے کس کا انتخاب کیا گیا ہے؟ اس بابت دبئی ملاقات میں نواز شریف اور زرداری کے بیچ کیا طے پایا ہے؟ اس لکیر کو ٹاک شوز میں میزبانوں اور ان کے مہمانوں نے اس شدت سے پیٹا کہ ہمیں حیرت ہوتی تھی کہ کیا سب کچھ نواز شریف اور زرداری صاحب کو ہی طے کرنا ہے؟ اگر ایسا ہے تو مزید طاقت ور ہوتی اسٹیبلشمنٹ کیا آلو چھولے بیچنے گئی ہوئی ہے؟ کس میں جرأت ہے کہ ان سے بالا ہی بالا کچھ طے کرلے؟ اس لکیر کو ہم کالم نگار بھی پیٹ رہے ہیں اور اس شدت سے پیٹ رہے ہیں کہ گیا سانپ بھی مڑ مڑ کر لکیر کی طرف دیکھتا ہے۔ کبھی کبھی بغیر کسی وجہ اور معقول بات کے بھی لکیر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ لکیر ہی تو ہے جس کا پیٹنا ہمارے بس میں ہے ورنہ جسے پیٹنا چاہا اسے اپنے سے طاقت ور ہی پایا۔
اکبر نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا تھا جو اس بنا پر مسترد کردیا گیا تھا کہ مذاہب کی کاک ٹیل تھا۔ آج کل ایسے ہی لوگ، ایسے ہی افکار، ایسے ہی عقائد اور مملکت کے لیے ایسا ہی آئین قابل قبول ہیں جو ازقسم کاک ٹیل ہوں۔ مذہب اسلام، معیشت سود پر استوار، طرز سیاست جمہوریت اور عقائد وافکار لبرل۔ جو مساجد کے دروازوں پر بھی ہندوئوںکے مقدس کنول کے ہار پھول پہنے کھڑے ہوں۔ ایسے لوگ ہی لوگ پسندیدہ، وسیع الخیال اور بین المذاہب ہم آہنگی کے چمپئن قرار پاتے ہیں جو اصولوں کی لکیر نہیں پیٹتے۔ ہندئوں کی دیوالی ہو تو دیوالی منانے چلے جاتے ہیں اور کرسمس کا موقع ہوتو عیسائی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر کیک کاٹنے میں بھی حرج نہیں سمجھتے۔ اس بارے میں ان کا عقیدہ اور اسلام کیا کہتا ہے یہ لکیر نہیں پیٹتے اور نہ سانپ کو بچ کر نکلنے دیتے ہیں، پکڑ کر، بیچ کر پیسے کھرے کرتے اور موج کرتے ہیں۔
ایسے لوگ بھی ہیں جن کی بیش تر خواہشوں اور تمنائوں پر وقت جھاڑو پھیرتا گزرگیا اور بقیہ زندگی وہ حسرتوں کی لکیریں پیٹتے رہ گئے۔ جرح اور بحث ان کی عادت سی بن جاتی ہے۔ پہلے خریداری کرتے وقت انہیں خاص طور پر ساتھ لے جایا جاتا تھا کہ ’’میاں ذرا بازار تک جارہے ہیں ساتھ چلے چلو، تم دکانداروں سے جرح اور مول تول اچھی کرتی ہو‘‘۔ اس مول تول کا بھی اپنا ہی لطف اور مزہ تھا۔ جیب میں سو روپے ہیں اور ہزار کی چیز کا بھائو کر رہے ہیں مجال ہے ذرا بھی کم مائیگی کا احساس ہو۔ خریداری ہی تو وہ وقت ہوتا تھا جب غریب بھی لکھ پتی کروڑ پتی دکاندار سے بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا اور اپنے تئیں کرخندار محسوس کرتا تھا۔ دکاندار پیش بھی ایسی ہی لجاجت اور عزت سے آتے تھے۔ اب تو جگہ جگہ ایسے مال اور شاپنگ سینٹر بنتے جارہے ہیں کہ جیب میں لاکھ روپے بھی ہوں تو احساس کمتری ہوتا ہے۔ رہی مول تول، اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں۔ ایک دام، ہر شے کی قیمت مقرر۔
وقت جن کے ارادوں کو دھول کرگیا ایسی خواتین سلائی مشین اور مرد معلمی کو ذریعہ روزگار بنالیا کرتے تھے۔ حکمران اور مخیر حضرات ان خواتین کو سلائی مشین دیتے سمے کی فوٹو شائع کروا کراپنی مخیّری کی لاج رکھتے تھے۔ آج کل سلائی مشین آئوٹ آف ڈیٹ ہے۔ لیپ ٹاپ دینے، سنگ بنیاد رکھنے اور معمار وطن کہلانے کا زمانہ ہے۔ جب سے علم کا لین دین پرئیوٹائز ہوا ہے پرائیوٹ اسکولوں اور کوچنگ سینٹرز کی بہار آئی ہے اساتذہ کے لیے بھی ٹھاٹ باٹ پیدا کرنے کی ایک وسیع مارکیٹ پیدا ہوگئی ہے۔
حکمرانوں کی خفیہ ملاقاتیں وہ سانپ ہیں جو اپنے پیچھے طویل لکیریں چھوڑ جاتی ہیں حالانکہ ان ملاقاتوں میں سوائے ’’خفیہ‘‘ کے مزے، پراسراریت اور لکیر پیٹنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ حکمران اپنے ذوق اور مطلب براری کے لیے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ خفیہ ملاقات کرنے میں شخصیت کے انتخاب پر ایک زمانے میں ہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مداح تھے جب انہوں نے اپنے فارم ہائوس پر بھارتی اداکارہ راکھی ساونت سے ملاقات کی تھی۔ راکھی ساونت اداکاری سے زیادہ لباس کی وجہ سے خبروں میں ان رہتی تھی۔ لباس کیا، بے لباسی کو ہنر کرکے پہنتی تھی۔ کسی زمانے میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور لیبیا کے کرنل قزافی کی خفیہ ملاقاتوں کا بھی بہت چرچا رہا۔ کچھ خفیہ ملاقاتیں ایسی بھی تھیں جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ پاکستان کی وساطت سے امریکا کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر اور چین کے رہنمائوں کی ملاقات بھی ایسی ہی ایک خفیہ ملاقات تھی۔ اگست 2008 میں جنرل کیانی نے امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مولن کے ساتھ بیچ سمندر میں ایک طیارہ بردار جہاز پر خفیہ ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں لکیر پیٹنے کو بہت کچھ تھا لیکن چونکہ معاملہ آرمی چیف کا تھا لکیر پیٹنا تو ایک طرف کسی کو لکیر کی طرف دیکھنے کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔ اسی زمانے میں وزیر اعظم نوازشریف اور بھارت کے ارب پتی سرمایہ دار جندال کی خفیہ ملاقات ہوئی تو کیا شور مچا، کیا ہی شدت سے لکیر پیٹی گئی تھی۔
پرویز مشرف کے ملک سے نکل جانے کے بعد ان کی جائداد کی ضبطی اور ملک واپس لانے کے احکامات بھی عرصے تک لکیر پیٹنے کے زمرے میں آتے رہے۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی بھی وہ سانپ نہیں اژدھا تھا جس کی پیچھے چھوڑی ہوئی لکیر برسوں ہمارے سیاست دانوں کے لیے سیاست کا سامان کرتی رہی۔ یہ لکیر اب متروک ہوتی جارہی ہے لیکن عمران خان اب بھی حوالہ دینے سے باز نہیں آتے کہ ’’ان کی ساری دولت تو باہر پڑی ہے جب کہ میرا سب کچھ پاکستان میں ہے‘‘۔ اس لکیر کو جیسا عمران خان نے پیٹا اس کی مثال نہیں ملتی حتیٰ کہ یہ لکیر پیٹتے پیٹتے وہ پرائم منسٹر کے عہدے تک جا پہنچے، پونے چار برس ایوان وزیراعظم میں رہنے کے بعد واپس بھی آگئے لیکن اب بھی جب ان کا دل کرتا ہے اس سانپ کو پٹاری میں سے نکل کر مخالفین پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔
ایک لکیر غربت کی لکیر بھی ہوتی ہے۔ اسلامی طرز سیاست اور طرز ریاست میں جو بمشکل ہی پیدا ہوتی ہے۔ افریقا جیسے خطے میں بھی لوگ زکوٰۃ کی رقم لیے پھرتے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا۔ تیرہ سو برس کی خلافت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو غربت کی لکیر بمشکل ہی کہیں پڑھنے کو ملے گی۔ یہ لکیر سرمایہ داریت کی عطا جمہوریت کی دین اور جدید عہد کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی عطا ہے، جو کرپشن کرتے ہیں، سرمایہ بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں اکائونٹ ہولڈر ہیں اور ہمارے حقوق پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ غریب غربت کی لکیر کے نیچے دب کر مررہے ہیں یا یہ لکیر غریبوں کو اوپر آکر پیس رہی ہے انہیں کچھ خبر نہیں۔ انہیں کچھ پروا نہیں۔
حالات نے لوگوں کو ایسا بائولا کردیا ہے کہ انہیں کچھ ہوش نہیںکہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ عام لوگوں کی بات چھوڑیں اچھے خاصے لوگ روزی روٹی کے گرداب میں ایسے پھنسے ہیںکہ حیران پریشان اور دم بخود ہیں۔ مہنگائی نے مت ماردی ہے۔ اب تو مہنگائی پر کچھ لکھنا بھی پامال موضوع چھیڑنے کے مترادف ہے۔ کس کس کا رنج کیجیے کس کس کو روئیے۔ پاکستان کو خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہو یا نہ ہو غریبوں کو ہمہ وقت چیلنج درپیش رہتے ہیں۔ غریبوں میں تو اب لکیر پیٹنے کی طاقت بھی نہیں رہی۔ آخر میں یہ بتاتے چلیں لکیر پیٹنا بیتی ہوئی بات پر آہ وزاری کرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر