ٹشو پیپر

699

ابتدائے سیاست میں عمران خان کو دیکھ کر جوش یاد آجاتے تھے

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

ان کے کارکنان اور شیدائی بھی اس فریب میں آگئے اور معاملہ ’’تیرا باپ بھی دے گا آزادی‘‘ تک اور پھر نو مئی کے انقلاب تک پہنچ گیا۔ نو مئی کے ’’انقلاب‘‘ پر سابق وزیراعظم عمران خان آج کل جے آئی ٹی کا سامنا کررہے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تو واقعہ میں ملوث تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں کی انہیں تصویریں اور ویڈیوز دکھائی گئیں تو انہوں نے ان افراد سے مکمل طور پر لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میرے آدمی نہیں ہیں۔ یہ میرے لوگ نہیں ہیں۔ میں نے انہیں نہیں بھیجا یہ لوگ ازخود پہنچ گئے ہوں گے‘‘۔ دو مہینے سے زائد ہونے کو آرہے ہیں تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنان جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان کے لیے آواز اٹھانا یا انہیں مقدمات میں سہولتیں مہیا کرنا تو درکنار عمران خان نے آج تک کسی کارکن کے اہل خانہ سے رابطہ کیا، ان کی ڈھارس بندھائی اور نہ ہمدردی کے دو بول کہے اور اب عمران خان نے انہیں پہچاننے سے بھی انکار کردیا ہے۔ شیریں مزاری کی بیٹی نے کہا تھا ’’عمران خان کو اپنے اور اپنی بیوی کے علاوہ کسی کی فکر نہیں ہے‘‘۔ عمران خان نے یہ ثابت کردیا۔ پچھلے دنوں تحریک انصاف کے ایک کارکن کی ویڈیو سامنے آئی تھی جو کمپیوٹر سائنس کا طالب علم ہے، تین لاکھ روپے مہینہ کماتا تھا اور نومئی کو کورکمانڈر ہائوس میں انقلاب کا اعلان کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ اب وہ زارو قطار رو رہا تھا۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے اپنا تن من قربان کرنے والا یہ سادہ کارکن بھول گیا تھاکہ ایسا مفاد پرست لیڈر کبھی انقلابی نہیں ہوسکتا جس کا انقلاب صرف اپنے مفاد اور اقتدار کے حصول تک محدود ہو۔

پاکستان میں سیاست اور سیاسی جماعتیں بیش تر عوام دشمن ہی رہی ہیں۔ بیوقوف اور سطحی جذبات کے لوگ جن کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی شخصیات، سیاسی جماعتیں نت نئے نعروں، نئے نئے اندازکے ساتھ سامنے آتی ہیں، لوگوں کی خواہشوں کو نعرے بنا دیتی ہیں اور پھر لوگ ان کے فریب میں دیوانگی کی حدود کو چھولیتے ہیں۔ ان میں جاہل، پڑھے لکھے شہری، دیہاتی، درمیانی طبقے، اپر کلاس اور انٹیلی جنشیا کی قید نہیں۔ ہر طبقے کے لوگ حکمران سیاسی اور فوجی اشرافیہ کے درمیان جاری اقتدار کی کشمکش میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس کشمکش میں ان طبقات کا کچھ نہیں بگڑتا۔ کارکنان ریاست، اس کے اداروں اور غالب طبقے کی پکڑ میں آجاتے ہیں اور ظلم اور جبر کا نشانہ بنتے ہیں۔ اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی خیر خواہی اور اچھے وقتوں کی امید میں وہ ہر راہرو کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور بالآخر دھوکا کھاتے ہیں۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

نو مئی کے بعد تحریک انصاف کے عام اور درمیانی طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کارکنان کے خلاف پوری شدت کے ساتھ کریک ڈائون جاری ہے۔ ہنگامی طور پر فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت جن پر مقدمات چلائے جارہے ہیں یا چلانے کی تیاریاں ہیں۔ یہ سلوک سب کے ساتھ نہیں کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات اس سے محفوظ ہیں۔ انہیں ایک پریس کانفرنس اور پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ لا تعلقی کے اعلان سے نجات کا پروانہ مل جاتا ہے۔ اگر چند ایک قانونی گرفت میں آئے بھی تو انہیں بہترین وکلا کی مدد اور قانونی گنجائشیں مل جائیں گے اور وہ ہیرو بن کر جیل سے رہا ہوکر کسی نئی پارٹی میں ضم ہوجائیں گے۔ ان کا حال مستقبل سب محفوظ ہے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور بہت سی دینی اور غیردینی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ریاستی جبر اور قیدو بند کی صعوبتوں کے ادوار دیکھے ہیں، کوڑے کھائے، پھانسیاں چڑھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن متعلقہ جماعتیں اپنے ان کارکنان سے لا تعلقی کا اعلان نہیں کرتیں، انہیں تنہا نہیں چھوڑتیں بلکہ انہیں اون کرتی ہیں، مفت قانونی امداد مہیا کرتی ہیں، پارٹی کی لیڈر شپ ان کارکنان کے اہل خانہ سے رابطہ کرتی ہیں، گھروں پر جاکر ان کی ہمت بندھاتی ہیں لیکن عمران خان وہ مہاتما ہیں جو ان باتوں اور کاموں سے بے نیاز ہیں۔ کسی کے گھر جاکر تعزیت کرنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ نعیم الحق جیسے دوست اور پارٹی کے لیے دن رات ایک کردینے والے لیڈر کی میت میں شرکت کرنا بھی انہیں گوارا نہیں تھا۔ نہ جانے وہ جنازوں میں شرکت کرنے سے اتنا بدکتے کیوں ہیں؟ کارکنان کو تو چھوڑیے حالیہ مشکل وقت میں وہ اپنے کسی لیڈر کے بھی گھر نہیں گئے۔ گھر گئے تو لطیف کھوسہ کے تاکہ وہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کو ان کا پیغام پہنچا سکیں اور وہ ان کی جان بچاسکیں۔ یہ اس شخص کا حال ہے جو اپنے کارکنان کو خوف کا بت توڑنے کی تلقین کرتے نہیں تھکتا تھا

جوش میں نعرے لگانا اور ہے
پر کہے کو کر دکھانا اور ہے

پا کستان کے سیاست دانوں میں بے حسی اور بے وفائی کے جس بلند مقام پر عمران خان موجود ہیں شاید ہی اس مقام تک کوئی پہنچا ہو۔ اس مشکل وقت میں قید وبند جھیلتے اپنے کارکنان کی مدد کرنے، قانونی معاونت مہیا کر نے کے بجائے وہ ان پر بھی سیاست کررہے ہیں۔ یہ کارکنان بھی ان کی بات سے مکر جانے کی مکروہ عادت اور بے پناہ جھوٹ کے پیچھے چھپنے کی چالبازیوں کا چارہ ہیں۔ وہ جے آئی ٹی اور عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو اپنے کارکنان سے مکمل لا تعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ اپنا تقریر کا شوق پورا کرنے کے لیے جب وہ روزانہ قوم سے خطاب کرتے ہیں تو ان کارکنوں کو اون کر لیتے ہیں اور ان کے وکیل بن جاتے ہیں لیکن اناڑی وکیل اور اس طرح کے دلائل دیتے نظر آتے ہیں کہ ’’جب فوج اور رینجرز کی وردی میں لوگ مجھے گرفتار کریں گے، مجھ پر ڈنڈے برسائیں گے تو لوگ احتجاج کرنے کہاں جائیں گے ظاہر ہے کنٹونمنٹ اور فوجی تنصیبات کارخ کریں گے۔ یہ لوگ وہاں نہ جاتے تو کیا کرتے‘‘۔ کیا ہی اچھا ملک ہے عمران خان جیسے سیاست دانوں نے اس کا کیا حشر کردیا۔ آخر میں اقبال کے دو شعر:

اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں
کھلتا نہیں میرے سفر زندگی کا راز
لائوں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں