ٹی ٹی پی: سازشی امریکی پتّا

542

جمعہ 14جولائی 2023 کو پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کا ماحصل یہ تھا: ’’پاکستان کی مسلح افواج نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں اور آزادانہ کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ عبوری افغان حکومت حقیقی معنوں میں اور دوحا معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے ارتکاب کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی، اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے موثر جواب دیا جائے گا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز کوئٹہ گیریژن کا دورہ کیا جہاں انہیں ژوب میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے پر بریفنگ دی گئی۔ پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں اور آزادانہ کارروائی پر شدید تشویش ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے موثر جواب دیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مسلح افواج اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی جب تک دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا‘‘۔

اگلے دن وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں حملے کر کے شہریوں کا خون بہانے والے دہشت گرد افغانستان کی سرزمین میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا کر رہا اور نہ ہی دوحا معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ پچاس سے ساٹھ لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں چار سے پانچ دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔ متنبہ کیا کہ یہ صورتحال مزید جاری نہیں رہ سکتی، پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا‘‘۔ یاد رہے کہ حال ہی میں بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں 12پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔ دوحا معاہدے میںطالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کو جگہ نہیں دیں گے اور اپنے ملک کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دوحا معاہدے پر پاکستان کے ساتھ نہیں امریکا کے ساتھ دستخط کیے ہیں، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور پاکستان ایک برادر اور مسلم ملک ہے، ہم اسے ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی حکومت ان کو ثبوت دیتی ہے تو وہ پاکستانی طالبان کے خلاف اقدامات کریں گے‘‘۔

دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان تند وتیز بیانات کا تبادلہ ایک افسوسناک صورتحال ہے جہاں قیام امن دونوں ممالک کے پرامن رہنے سے مشروط ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ افغانستان میں امن کی صورتحال خراب ہو اور پاکستان میں اس کے اثرات رونما نہ ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں، امن وامان کی حالت دگرگوں ہوں اور افغانستان اس سے دامن بچا سکے۔ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان 1893 میں کھینچی جانے والی سرحدی لکیر، ڈیورنڈ لائن اس لحاظ سے بے معنی ہے کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے کسی کو یہ لکیر تسلیم نہیں ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ افغان امیر عبدالرحمن اور برطانوی ہند کے سیکرٹری سرمارٹیمر ڈیورنڈکے درمیان حدبندی کے جس سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے اس کی مدت سو برس تھی اور 1993 میں یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ برطانوی حکومت سے ہوا تھا، پاکستان کے قیام کے بعد جس کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ اگرچہ دلائل کے ساتھ ان باتوں کا رد کیا جاتا ہے لیکن سرحد کے دونوں طرف رہنے والے ان لوگوں کے قلوب واذہان کا کیا کیا جائے جو اس لکیرکو بو گس سمجھتے ہیں، جہاں ایک ہی خاندان کے آدھے افراد سرحد کے اس طرف اور آدھے افراد سرحد کے اُس طرف رہتے ہیں۔ جو سرحد کے اطراف آزادانہ آنے جانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جو ڈیورنڈ لائن کے اطراف کو ایک ہی سرزمین سمجھتے ہیں۔ اپنی سرزمین۔

سوال یہ ہے کہ یکجہتی کی اس فضا میں ٹی ٹی پی یا تحریک طالبان پاکستان کو کہاں فٹ کیا جائے جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور فوج پر حملوں میں ملوث ہے۔ جواب یہ ہے کہ ٹی ٹی پی دہشت گردی کی آگ کو دو مسلم ممالک کے درمیان بھڑکائے رکھنے، تعلقات کشیدہ رکھنے کی امریکی استعمار کی سازشوں کا ایک حصہ اور پرانی استعماری تیکنیک ہے۔ عراق جس کی ایک مثال ہے۔ عراق میں شیعہ اور سنی مسلمان صدیوں سے بھائیوں کی طرح رہتے آئے ہیں جن کے درمیان کبھی فرقہ وارانہ فساد دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا ہر چند کہ وہاں51فی صد آبادی شیعہ اور 42فی صد آبادی سنی ہے اور اقتدار ہمیشہ سنیوں کے پاس رہا۔ عراق میں امریکا کی آمد کے بعد اچانک شیعوں اور سنیوں کی مقدس ہستیوں کے مزارات پر دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ساتھ ہی ساتھ سنی اور شیعہ عسکریت پسند گروپ بھی وجود میں آگئے۔ ان دھماکوں کا الزام شیعہ حضرات کی طرف سے سنیوں اور سنیوں کی طرف سے شیعوں پر لگایا گیا لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ سب امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کیا دھرا تھا۔ امریکی ایجنٹ سنیوں کا بھیس بدل کر شیعوں اور شیعوں کا بھیس بدل کر سنیوں کی مقدس ہستیوں کے مزارات پر دھماکے کرتے اور نکل جاتے۔ کسی طرف سے الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوتا اور دونوں طرف کے مسلمان آپس میں لڑنا شروع ہوجاتے۔ اسی طرح جب امریکا نے دہشت گردی کی بے چہرہ جنگ میں افغانستان پر حملہ کیا تو پرویز مشرف کے امریکا کا ساتھ دینے کے باوجود پاکستانیوں کی ہمدردی افغان مجاہدین کے ساتھ تھی۔ طالبان سے اہل پاکستان کی ہمدردی کو نفرت میں تبدیل کرنے کے لیے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کی پروردہ تنظیموں نے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے تک دہشت گردی کا بازار گرم کردیا جس کا الزام تحریک طالبان پاکستان نامی تنظیم پر لگایا جانے لگا اور دھماکے کے اگلے ہی گھنٹے اس تنظیم کا کوئی ترجمان ٹیلی فون کال پر دھماکے کی ذمے داری قبول بھی کر لیتا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹی ٹی پی یا تحریک طالبان پاکستان ایک امریکی ساختہ اور امریکی پلانٹڈ تنظیم اور خطے کے مسلمانوں کو باہم لڑوانے کا امریکی سازشی پتا تھا۔ موجودہ ٹی ٹی پی جس کی باقیات ہے۔

افغانستان اور پاکستان کی مسلم قیادت کو امریکی استعمار کی اس سازش کا نہ صرف ادراک بلکہ اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے اقدام کرنے چاہییں نہ کہ وہ باہم الزام تراشی کریں اور ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں۔ نئی افغان حکومت کی ذمے داری اس معاملے میں زیادہ ہے۔ انہیں پاکستان کا موقف سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد امید تھی کہ پاکستان سرحد کے اس طرف سے محفوظ ہو جائے گا لیکن عملی طور پر ایسا دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ ضرورت اس بات کی دونوں مسلم ممالک بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھیں اور مل کر ان کا حل نکالیں۔