اسلام سے مغرب کی جاہلانہ معرکہ آرائی اور تصادم

647

تحلیل نفسیات (Psychological analysis) کے ماہرین کا خیال ہے کہ کسی شخص کی زیادہ تر جذباتی زندگی اور زیادہ تر رحجانات، پسندیدہ اور نا پسندیدہ تعصبات کے ڈانڈے اس کی تشکیلی عمر اور ابتدائی بچپن سے ملائے جاسکتے ہیں۔ صلیبی جنگوں کی صدیاں (1095-1291) مغرب کی تشکیل عمر کی صدیاں تھیں جس میں وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام سے بے پناہ تعصب، دشمنی، خونریزی، حملوں اور جنگی جنون میں ڈوبا نظر آتا تھا۔ 25نومبر 1095ء کو پوپ اربن دوم نے پادریوں، نائٹوں اور غریب لوگوں کے ایک اجتماع میں اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ ان جنگوں سے پہلے اور بعد مغرب کبھی اس طرح کی جنونی جذباتیت میں مبتلا نظر نہیں آیا۔ اس عہد کے مغرب میں جاگیرداروں، بادشاہتوں، مظلوم رعایا، رومن سلطنت کی باقیات کے علاوہ اگر کچھ مشترک تھا وہ اسلام دشمنی اور صلیبی جنگیں (Crusades) تھیں۔ یہ جنگیں عیسائی یورپ کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کرتی تھیں۔ پوپ نے یورپ کے نائٹوں پر زور دیا کہ وہ آپس میں لڑنا چھوڑ دیں اور خدا کے دشمنوں کے خلاف متحد ہو جائیں۔

صلیبی جنگوں کے باوجود عیسائیت مغرب کی شناخت کی بنیاد نہیں بلکہ ایک اضافہ ہے۔ عیسائیت ان کے تہذیبی وجود کا آغاز نہیں ہے۔ ان کی تہذیب عیسائیت سے شروع نہیں ہوتی۔ عیسائیت سے قبل کے ادوار اہل مغرب کے لیے تاریخ کا گردو غبار نہیں ہیں بلکہ اتنے ہی اہم اور قابل قبول ہیں جتنا عیسائیت بطور مذہب یا پھر اس سے بھی زیادہ۔ عیسائیت ان کے ماضی کا آغاز نہیں ہے اور نہ ہی آگاہی اور تجربے کا واحد مقام ہے۔

مغربی یورپ کے 75فی صد لوگ عیسائیت سمیت کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ مشرقی یورپ کے تقریباً 80فی صد لوگوں کا حال بھی یہی ہے۔ مغرب نے اپنا تصور تقدیس کچھ اور چیزوں کے ساتھ جوڑلیا ہے۔ قومی مفاد آزادیٔ اظہار، فرد کی آزادی، انسانی حقوق، لبرل ازم، سرمایہ داریت اور جمہوریت وغیرہ مغرب میں تقدیس کا وہ درجہ رکھتی ہیں جو عہد جدید کی بنیاد اور ستون ہیں۔ مغرب کے نزدیک انسانی سعادت کی یہی وہ منزلیں اور آخری حل ہیں جن کے بعد تاریخ کا اختتام ہوچکا ہے اور انسان کی روح کمالِ انسانی کی معراج تک پہنچ چکی ہے۔ انسانی سعادت کی ان منزلوں کو جب وہ اپنے زاویۂ نظر کے مطابق کسی تاریخی شخصیت کی توہین جیسی معمولی بات سے پامال ہوتے دیکھتے ہیں تو مسلمانوں کی یہ حرکت انہیں جنون اور دیوانگی محسوس ہوتی ہے اور مسلمان نیم وحشی۔

اہل مغرب کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصور نہیں پایا جاتا کہ عیسائیت کے علاوہ سب رد ہے۔ یونان کے کھنڈرات ان کے ذوق وشوق کا موضوع ہی نہیں تہذیبی وجود کا آغاز اور علامت ہیں۔ وہ اپنی تاریخ کا آغاز یونان سے کرتے ہیں۔ یونان کی دیو مالاخرافات نہیں ان کے علم وحکمت کی روح ہے۔ یونانی دیوتائوں کے قصے ان کی تعلیم کی اساس ہیں۔ ان کے حوالے مغرب میں اس قدر تکرار سے کیے جاتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے اسماء حسنی کی تسبیح۔ ہفتے کے دن، مہینوں کے نام ان کے ہاں عیسائیت سے نہیں یونانی خدائوں سے منسوب ہیں۔ بت پرستی پر مبنی یونانی اور رومن تہواروں کا پورا مغرب دلدادہ اور مشتاق ہے اور پورے جوش وخروش اور وابستگی کے ساتھ مناتا ہے۔

آج اہل مغرب اپنی پیدائش اور بچپن یسوع مسیح، کنواری مریم اور روح القدس کے ابواب میں تلاش نہیں کرتے۔ ان کا تہذیبی اور ثقافتی وجود ایک تسلسل کے ساتھ اس سے پیچھے جاتا ہے۔ یسوع مسیح ان کی تاریخ کا ایک باقی رہنے والاواقعہ ضرور ہے رومی شہنشاہ قسطنطین کی قبولیت نے عظیم رومن امپائر کے ساتھ جس کا ایک ربط جوڑ دیا ہے لیکن ان کے فخر واعزاز کی اکثر بنیادیں، جذبات اور احساسات یونان اور رومن تہذیب کے آثار ہیں جن میں وہ پناہ تلاش کرتے ہیں۔ موجودہ مغربی تہذ یب اگر ایک طرف اپنی مذہبی شناخت کے لیے چرچ اور صلیب سے تعلق کا اظہار کرتی ہے تو دوسری طرف اپنی تہذ یبی اور عمرانی پہچان کے لیے یونان اور رومن تہذیب سے منسلک ہونے کو فخر کا باعث سمجھتی ہے۔

یونان اور اہل روم کے ساتھ یہی تعلق مغرب کا رسالت مآب محمدؐ کی مخالفت اور انبیا کرام کے دین کی مزاحمت اور دخل اندازی کا اصل سبب ہے۔ کلام الٰہی اور وحی کو عقل انسانی کے مقابل کمتر جاننا اور حقیقت تک رسائی کے لیے عقلی قیاس، اٹکل اور اندازوںکو درست، اصل اور واحد ذریعہ سمجھنا مغرب کی فکر میں یونان اور اہل روم کا ورثہ ہے۔ عالم غیب کو عقل کے محدود اندازوں اور دائروں کے اندر رہ کر سمجھنے کی وجہ سے اہل مغرب جو ٹھوکریں کھاتے ہیں اس سے پیدا ہونے والا احساس کمتری پیغمبر اسلام کی توہین اور بغض میں ڈھل کر مختلف مظاہر کی صورت سامنے آتا ہے۔ عقل ودانش کے نام پر یہ وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے صدیوں سے تاحال مغرب اسلام اور انبیاؑ کے دین سے جاہلانہ معرکہ آرائی اور تصاد م میں مبتلا ہے۔ اس معرکہ آرائی اور تصادم میں قرآن کی بے حرمتی اور توہین رسالت جیسے واقعات مغرب کی بے بسی اور اسلام کے مقابل ناکامی کی علامت ہیں۔ افغانستان، عراق، فلسطین، شام، کشمیر اور نہ جانے کہاں کہاں عالم اسلام کو تباہ بربادکرنے اور ابو غرائب جیل اور گوانتانامو بے میں قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کے باوجود جب وہ دیکھتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی اکثریت نہ مغرب سے مرعوب ہے اور ان کے افکار تازہ کو قبول کرنے پر تیار بلکہ اس کی مزاحمت کے درپے ہے تو مغرب کا عام متعصب شہری ہی نہیں حکومتیں بھی جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوکر اسلامی شعائر کی بے حرمتی پراتر آتی ہیں۔

سویڈن اسکینڈے نیوین ممالک میں سے ایک ہے۔ ان ممالک میں توہین مذہب کا قانون موجود تھا۔ 1563 میں شاہ ایرک 14 نے مذہب کی حفاظت کے لیے قانون بنایا تھا جو صدیوں رائج رہا۔ 1949 میں اس قانون کو اعتدال میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کا نام ’’امن کا مذہب‘‘ رکھا گیا۔ 1970 میں توہین مذہب کے اس ترمیم شدہ قانون کو بھی ختم کردیا گیا۔ موجودہ قانون کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تب حرکت میں آتا ہے جب یہودیوں اور ہم جنس پرستوں کو تحفظ دینا مقصود ہو۔ صورتحال یہ ہے کہ ڈنمارک، سویڈن اور فن لینڈ میں مذہب کی توہین کرنا کوئی جرم نہیں۔ یہی حال یورپی یونین، امریکا، افریقا میں فرانس کی کالونیوں، چین، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا ہے۔ اسلامی شعائر کی توہین کے واقعات پر ان ممالک کے حکمرانوں، سیاست دانوں اور دیگرطبقہ ہائے فکر کے نمائندوں کی مذمت محض ڈھکوسلا اور فریب ہے۔ اگر انہیں ان واقعات پر افسوس اور درد ہے تو وہ مذہب کی توہین کرتے قوانین کو ختم کیوں نہیں کردیتے۔

اس تصادم میں مسلمانوں کا کچھ بھی دائو پر لگا ہوا نہیں ہے نہ قرآن کی حرمت اور نہ رسول کریمؐ کی ناموس۔ دنیا بھر میں مساجد کے میناروں سے بلند ہوتی اشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمدالرسول اللہ کی صدائیں اس سربلندی کا اعلان ہیں جو عنقریب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آنے والی ہیں۔