پاکستان میں ڈائریا سے روزانہ100سے زائد بچوں کی ہلاکت، زنک سپلیمنٹ سے زندگیاں بچانا ممکن

1492
supplement
اسلام آباد: پاکستان میں ہر روز 110 بچے ڈائریا کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں جن میں سے اکثریت کی جانیں زنک سپلیمنٹس دے کر بچائی جا سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزارت صحت کے حکام اور ماہرین صحت نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں زنگ کی صحت کےلئے اہمیت کے حوالے سے منعقدہ آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں ہر روز 110 بچے ڈائریا کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں جن میں سے اکثریت کی جانیں زنک سپلیمنٹس دے کر بچائی جا سکتی ہے۔ گزشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد ہزاروں بچوں کو او آرایس کے ساتھ زنک سپلیمنٹس دیے گئے جس کے نتیجے میں ہزاروں بچے ڈائریا اور غذائی قلت سے محفوظ رہے۔
آگاہی سیمینار کا انعقاد وفاقی وزارت صحت اور مقامی دوا ساز ادارے فارمیوو نے کیا تھا، جس سے وفاقی ہیلتھ سیکرٹری افتخار شلوانی، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر بصیر اچکزئی، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف، ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان، پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسییشن کے چیئرمین سید فاروق بخاری، فارمیوو کے مینجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم، چیف آپریٹنگ افیسر ندیم رحمت، نیوٹریشن انٹرنیشنل کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ شہزاد افضل، یو ایس فارماکوپیا کے نمائندے وقاس احمد، عبدالصمد اور دیگر نے خطاب کیا۔
سیمینار سے خطاب میں وفاقی سیکرٹری ہیلتھ افتخار شلوانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت سے پری کوالیفائیڈ پلانٹس میں زنک کی مصنوعات کی تیاری نہایت خوش آئند ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کا انحصار غیر ملکی فارماسیوٹیکل اداروں کی مصنوعات پر سے کم ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ملکی اور غیر ملکی ادارے زنک کی مصنوعات درآمد کرنے کے بجائے مقامی کمپنی فارمیوو سے ارزاں قیمت پر خرید سکیں گے جس کے نتیجے میں نہ صرف قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو زنک دے کر ڈائریا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے بچا جا سکے گا۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پاکستان ڈاکٹر بصیر اچکزئی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد لاکھوں بچے ڈائریا میں مبتلا ہوئے لیکن انہیں زنک سپلیمنٹس دے کر ان میں سے اکثریت کی جانیں بچائی جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زنک ڈائریا سے بچانے والا ایک ترین اہم انصر ہے جسے او ار ایس کے ساتھ دے کر بچوں کو ڈائریا اور غذائی قلت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یونیسیف اور دیگر عالمی ڈونر ایجنسیاں زنک کی مصنوعات ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے خریدتی ہیں لیکن اب فارمیوو کے ڈبلیو ایچ او پری کوالیفائیڈ پلانٹ ڈکلیئر ہونے کے بعد یہ مصنوعات ان اداروں کو چند روپوں میں دستیاب ہوں گی جس کے نتیجے میں ان کی فراہمی ملک کے زیادہ تر حصوں میں کی جا سکے گی۔
اس موقع پر انہوں نے فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو مشورہ دیا کہ وہ ٹی بی، ایچ آئی وی اور کینسر کی ادویات مقامی طور پر تیار کریں کیونکہ ان ادویات کی خریداری پر گلوبل فنڈ اور دیگر عالمی اداروں کے 200 سے 300 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں جو کہ بین الاقوامی فارماسوٹیکل کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں جبکہ ان ادویات کی مقامی طور پر تیاری سے یہ قیمتی زر مبادلہ پاکستان اس سکتا ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف نے مقامی فارماسیوٹیکل کمپنی فارمیوو کے پلانٹ کو ڈبلیو ایچ او پری کوالیفائیڈ ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اب پاکستانی ادویات اور مصنوعات کی بیرون ملک برآمد میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے گزشتہ سال 713 ملین امریکی ڈالر کی ادویات اور مصنوعات برآمد کی اور امید ہے کہ اب فارمیوو میں ہونے والی پیشرفت کے بعد پاکستانی مصنوعات کی برآمد ایک ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی اسلام آباد کے وائس چانسلر پروفیسر شہزاد علی خان کا کہنا تھا کہ بچوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ڈائیریا ہے اور بدقسمتی سے ڈائیریا سے مرنے والے 50 فیصد بچوں کا تعلق پاکستان، ہندوستان اور نائجیریا سے ہوتا ہے۔
پروفیسر شہزاد علی خان کا کہنا تھا کہ ڈائریا سے ہونے والی زیادہ تر اموات سے بچاؤ ممکن ہے جس کا ایک اہم ذریعہ صاف پانی کی فراہمی، اور ڈائریا میں مبتلا بچوں کو او آر ایس کے ساتھ ساتھ زنک سپلیمنٹس دینا بھی شامل ہیں۔
فارمیو کے مینجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی پاکستان میں ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے، عالمی ادارہ صحت سے فارمیوو کے مینوفیکچرنگ پلانٹ کو پری کوالیفائی کروانا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی صحت کے شعبے میں اخلاقی قدروں کو قائم کرنے اور بڑھانے پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلے میں ان کا ادارہ عالمی اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز اور سرٹیفکیشن حاصل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔