…میئر کراچی کا دنگل

815

دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ’’کراچی‘‘ پاکستان کا معاشی حب اور منی پاکستان کہلاتا ہے۔ یہ نا صرف پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے بلکہ اس کی حیثیت پاکستانیوں کے لیے ایک ماں جیسی ہے جو پاکستان کے ہر علاقے کے شہریوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے۔ ملک بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد بسلسلہ ِ روزگار یہاں آتی ہے اور پھر یہیں بس جاتی ہے۔ اتنی زبردست حیثیت اور پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھنے کے باوجود اس شہر کی بدقسمتی ہی ہے جو آج تک کسی حکمران نے لوٹ کا مال اور کمائی کا دھندہ بنانے سے زیادہ اس شہر کو حیثیت نہیں دی۔ اگر کچھ ترقیاتی کام کرائے بھی گئے تو فقط اس حد تک کہ اقتدار والوں کی کمائی کے ذرائع بہ سہولت چلتے رہیں۔ شہر میں آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کے لیے کوئی منصوبہ بندی کبھی بھی کسی کی ترجیح نہیں رہی۔ عام شہریوں کو اگر کچھ سہولت پانی کی فراہمی، سڑکوں، پارکوں، سیوریج نظام میں بہتری اور دیگر بلدیاتی امور میں ملی بھی ہے تو وہ جماعت اسلامی کے سابقہ میئرز ’’عبدالستار افغانی‘‘ اور ’’نعمت اللہ خان‘‘ کے ادوار میں ملی ہے۔ لیکن نعمت صاحب کی نظامت کے بعد گزشتہ بیس سال میں کراچی کی سڑکوں اور گلیوں کا جو حال ہوا، جس طرح اہل کراچی پانی، صحت، تعلیم اور کھیل کے میدانوں اور پارکوں جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی گزشتہ تقریباً چھے سال سے ’’حق دو کراچی کو‘‘ کے عنوان سے ایک مربوط اور مسلسل مہم امیر جماعت کراچی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں چلارہی ہے۔ حقوق کراچی کی اس جدوجہد کا اہم نکتہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد تھا۔ ہر طرح کی رکاوٹوں اور مشکلات کو عبور کرنے کے بعد 15 جنوری دو ہزار تیئس کراچی کے شہریوں کے لیے وہ تاریخی دن بن کر آیا جب شہر کے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ اس الیکشن میں جس طرح پیپلز پارٹی کی جانب سے حلقہ بندیوں سے لیکر دھاندلی اور سرکاری وسائل کے استعمال اور متعصب اہلکاروں کی تعیناتی کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ سردست ہمارا موضوع بلدیاتی انتخابات کے پانچ ماہ بعد ہونے والا میئر کا انتخاب ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کراچی کی میئر شپ کے لیے حافظ نعیم الرحمن کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان کراچی سے جیتنے والے اپنے تمام چیئرمین اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے کونسل ارکان جن کی کل تعداد 63 بنتی ہے کو واضح ہدایات جاری کرچکے ہیں۔ اس طرح جماعت اسلامی کے ووٹوں کی تعداد 193 تک پہنچتی ہے جو میئرشپ کے لیے درکار 179 ووٹوں کی سادہ اکثریت سے کہیں زیادہ ہے۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی اپنے تمام اتحادیوں کو ملاکر بھی سادہ اکثریت سے دور نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا دعویٰ ہے کہ مئیر پیپلز پارٹی کا جیالا ہوگا۔ اور ساتھ ہی مئیر شپ کے حصول کے لیے پیپلز پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کے لیے بدترین فسطائیت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کے نظریاتی لوگ تو اس کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوں گے اس لیے ان کا ٹارگٹ پی ٹی آئی کے نومنتخب افراد ہیں۔ چن چن کر پی ٹی آئی کے منتخب لوگوں کو غائب کروایا گیا۔ 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ گھر پر نہ ملنے کی صورت میں ان کے والد، بھائیوں اور حتیٰ کہ خبریں یہ بھی ہیں معصوم بچوں پرتشدد کرکے ان کا پتا جاننے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح مومن آباد سے لاپتا کیے گئے پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین اسد امان کو گزشتہ روز ایک اور لاپتا چیئرمین اور کچھ نامعلوم افراد کے ہمراہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اور پی ٹی آئی کے دیگر منتخب ارکان اپنے پارٹی چیئرمین کی ہدایت کے برخلاف حافظ نعیم الرحمن کو میئر کے لیے ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ یہ ویڈیو جو مبینہ طور پر کسی فارم ہائوس میں بنائی گئی ہے اس میں باور کروایا گیا کہ یہ تمام لوگ پی ٹی آئی کے منتخب نمائندے ہیں جو سراسر جھوٹ ہے۔ صرف دو منتخب افراد ہیں باقی سب نامعلوم لوگ ہیں۔ اس ویڈیو کی بنیاد پر مختلف نیوز چینلوں پر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے نمائندے جماعت اسلامی کے میئر امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ساتھ ہی حلیم عادل شیخ کی دو ماہ پرانی ایک ویڈہو بھی ایڈٹ کرکے دکھائی جاتی رہی جس میں وہ جماعت اسلامی کی حمایت سے انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس ویڈیو کی تردید خود حلیم عادل شیخ نے کردی ہے اور کہا ہے کہ یہ اس وقت کا ویڈیو بیان ایڈٹ کرکے دکھایا گیا ہے جب پی ٹی آئی نے کراچی میں کسی کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی چیئرمین کی ہدایت پر تمام منتخب نمائندے غیر مشروط طور پر حافظ نعیم صاحب کو ووٹ دیں گے۔ اگر کوئی نمائندہ کسی دباؤ میں آکر اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی اور اسے ڈی سیٹ کیا جائے گا۔ تمام چیئرمین اور مخصوص نشست پر منتخب افراد حافظ نعیم کو ووٹ دیں گے۔ پی ٹی آئی رہنما عالمگیر خان نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’کسی ساتھی نے اگر کراچی میں جماعت اسلامی کو میئر کے لیے ووٹ نہ دیا تو وہ عمران خان اور کراچی سے مخلص نہیں‘‘۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت نے 11 جون کو ایک تاریخی جلسہ عام میں دوٹوک واضح کردیا کہ مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو مذمت نہیں، مزاحمت کریں گے۔ امیر جماعت محترم سراج الحق اور حافظ نعیم نے برملا کہا کہ ہمارے مقابل وہ بھٹو مافیا ہے کہ جس نے محترمہ فاطمہ جناح کا مینڈیٹ بھی چرایا تھا۔ جس نے ملک توڑ دیا لیکن عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیا۔ حافظ نعیم نے بتایا کہ مرتضیٰ وہاب اور سعید غنی یہ نہیں بتاسکے کہ تین لاکھ ووٹ زیادہ ہوتے ہیں یا نو لاکھ ووٹ۔ ساتھ ہی کہا کہ ہم نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیا ہے جس کے مطابق پارٹی کے خلاف جانے والا نااہل اور اس کا ووٹ بھی مسترد قرار پائے گا۔ یہ تو تھی موجودہ صورتحال۔ اب آخر میں ہم پی پی امیدوار اور حافظ نعیم الرحمن کا مختصراً تقابلی جائزہ لے لیتے ہیں۔
مرتضی وہاب کی واحد خصوصیت یہ ہے کہ وہ پی پی کی ایک مرحوم رہنما فوزیہ وہاب کے صاحبزادے ہیں اور 2016 میں انہیں غیرقانونی طور پر وزیراعلیٰ سندھ کا مشیر برائے قانون لگایا گیا۔ اس کے بعد غیر قانونی طور پر ہی انہیں ایڈمنسٹریٹر کراچی مسلط کیا گیا۔ اور انہوں نے اپنے دور میں کراچی کو بدحال کرکے رکھ دیا۔دوسری جانب حافظ نعیم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، بہترین مقرر، حافظ قرآن، باصلاحیت، تجربہ کار مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے، کرپشن سے پاک، دیانت دار اور امانت دار شخص ہیں۔ امید ہے کہ 15 جون کو تمام تر سازشوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود حافظ نعیم الرحمن میئر کراچی منتخب ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ان شاء اللہ کراچی کی تعمیروترقی کے ایک نئے دور کاآغاز ہو گا۔