جرنیلوں کا نعرہ ’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘

1542

انسانی تاریخ میں حکمرانوں نے ہمیشہ وفادار وزیروں، مشیروں اور رعایا کی قدر کی ہے۔ بادشاہ مطلق العنان ہوتے تھے مگر انہیں بھی وفادار عزیز ہوتے تھے۔ مغل بادشاہ اکبر کے نورتن یا نو وزیر تھے اکبر ان سب وزیروں پر جان چھڑکتا تھا۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں کا معاملہ عجیب ہے۔ ان کا نعرہ ہے استعمال کرو اور پھینکو۔ چاہے پھینکا جانے والا کیسا ہی جاں نثار اور وفادار کیوں نہ ہو۔
مشرقی پاکستان میں جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہ کرکے بحران پیدا کیا تو ملک کی بقا و سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ جرنیلوں کے فوجی آپریشن نے مشرقی پاکستان میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس فضا میں پاکستانی جرنیلوں نے دفاع وطن کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے نوجوانوں پر مشتمل البدر اور الشمس کے نام سے دو تنظیمیں قائم کیں۔ ان تنظیموں کے اراکین فوج کے لیے آنکھوں اور کانوں کا کام کرتے تھے۔ البدر اور الشمس کے نوجوان بنگالیوں پر مشتمل تھے۔ ان کی سادہ دلی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ان تنظیموں کے اراکین نے فوجی اہلکاروں سے اپنے دفاع کے لیے اسلحہ طلب کیا تو انہیں اسلحہ نہ دیا گیا اس لیے کہ اس وقت فوج کی پالیسی بنگالیوں کو مسلح کرنے کی نہیں تھی۔ ایک فوجی اہلکار کے مطابق البدر اور الشمس کے نوجوان اسلحہ مانگنے آئے تو انہیں دعائوں پر مشتمل کتابچے یہ کہہ کر تھمادیے گئے کہ فی الحال تو ہمارے پاس یہی کچھ ہے۔ ان نوجوانوں کی حب الوطنی اور سادہ لوحی دیکھیے کہ انہوں نے پلٹ کر یہ کہا ہی نہیں کہ دعائوں کے کتابچے پستول اور بندوق کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ البدر اور الشمس جرنیلوں نے قائم کی تھیں اور ان تنظیموں کے نوجوانوں کی حفاظت جرنیلوں کی ذمے داری تھی۔ مگر بدقسمتی سے جرنیلوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہ کیں۔ جرنیل اور فوجیوں نے 16 دسمبر 1971ء کو خود تو بھارتی فوج کے سامنے شرمناک انداز میں ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح انہوں نے بین الاقوامی قوانین کے تحت خود کو محفوظ بنا لیا مگر جرنیلوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ تاریخ کے اس نازک موقع پر جرنیلوں نے نعرہ لگایا البدر اور الشمس کو استعمال کرو اور پھینک دو۔ چناں چہ مکتی باہنی کے درندوں نے پھینکی ہوئی البدر اور الشمس کے ہزاروں نوجوانوں کو شہید کردیا۔ ہمیں یاد ہے کہ 16 دسمبر 1992ء میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پاکستانی جرنیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کو بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے تھے تو کچھ دن پہلے ہمیں آگاہ کردیتے تا کہ ہم البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مشرقی پاکستان سے نکال لیتے۔ قاضی صاحب کی یہ بات سو فی صد درست تھی۔ میجر صدیق سالک کی کتاب ’’میں نہ ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ پاکستانی جرنیلوں کے حوصلے 16 دسمبر سے ڈیڑھ دو ہفتے پہلے ہی پست ہوچکے تھے اور وہ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ صرف فیصلے کا اعلان ہونا باقی تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر جرنیل جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو ہتھیار ڈالنے سے ایک ہفتہ پہلے بھی بتادیتے کہ ہم بھارت کے آگے سرینڈر کرنے والے ہیں تو جماعت اسلامی اپنے نوجوانوں کو نیپال کے راستے سے نکال سکتی تھی مگر پاکستانی جرنیلوں کو ہتھیار ڈالتے ہوئے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کا خیال تک نہ آیا۔ اس لیے کہ پاکستانی جرنیلوں کے لیے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کی جانوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ وہ البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو جتنا استعمال کرسکتے تھے کرچکے تھے اور اب جرنیلوں کے لیے ان نوجوانوں کی کوئی ’’افادیت‘‘ نہیں تھی۔ جرنیل جب تک نوجوانوں کو استعمال کرسکتے تھے انہوں نے استعمال کیا اور پھر انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر چلتے بنے۔
مشرقی پاکستان کے بحران میں آبادی کے ایک اور طبقے نے فوج کا ساتھ دیا۔ یہ طبقہ عرف عام میں بہاری کہلاتا ہے۔ اس طبقے نے ہر مرحلے پر جرنیلوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ بلاشبہ بہت سے بہاری بھائی نیپال کے راستے مشرقی پاکستان سے نکلنے اور مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک ڈیڑھ لاکھ بہاری مشرقی پاکستان ہی میں رہ گئے۔ ان تمام وفاداروں کو حفاظت کے ساتھ پاکستان لانا بھی جرنیلوں کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔ بنگالیوں نے فوج کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہزاروں بہاریوں کو شہید کیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے اس دائرے میں بھی جرنیلوں نے استعمال کرو اور پھینکو کا نعرہ بلند کردیا۔ بنگلادیش کی حکومت نے کئی بار ان بہاریوں کو بنگلادیش کی شہریت اختیار کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پاکستانیت کو ترک نہیں کرسکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پاکستانیوں کی پانچ نسلیں تباہ ہوگئیں۔ پاکستان میں لاکھوں افغانی آباد ہیں، ہزاروں بنگالی آباد ہیں، ہزاروں برمیز آباد ہیں مگر پاکستان میں آباد نہیں تو وہ بہاری جنہوں نے ملک اور فوج کے ساتھ وفاداری نبھائی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں کئی بار ان خانما بربادوں کو پاکستان لانے کی کوشش ہوئی مگر اس پر سندھ میں احتجاج کو آڑ بنا لیا گیا۔ جنرل ضیا الحق اتنے طاقت ور تو تھے کہ سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جعلی مقدمے میں پھانسی کی سزا دے سکتے تھے مگر وہ اتنے طاقت ور نہیں تھے کہ ڈیڑھ دو لاکھ بہاریوں کو وطن واپس لا کر آباد کرسکتے۔
یہ 1980ء کی دہائی کی بات ہے ہمیں ملک کی ایک ممتاز شخصیت نے آف دی ریکارڈ بتایا کہ 1980ء کی دہائی میں خانہ کعبہ کے احاطے میں مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی عسکری قیادت کا ایک اجلاس ہوا۔ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلح جدوجہد شروع کریں اور اسے ایک بلند سطح پر لے آئیں تو پاکستان عسکری طور پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرے گا۔ کشمیریوں کی تاریخ مسلح جدوجہد کی تاریخ نہیں تھی۔ کشمیریوں نے کبھی اجتماعی طور پر تاریخ میں ہتھیار نہیں اٹھائے تھے۔ مگر پاکستان کا مشورہ بہت اہم اور کشمیر کی تقدیر بدلنے والا تھا چنانچہ اہل کشمیر نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنی تحریک کو اس بلندی پر لے گئے جس کا ان سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ چناں چہ کشمیریوں نے بجا طور پر پاکستان کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ اس کے جواب میں کشمیریوں سے کہا گیا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ اسی طرح جرنیلوں نے ایک بار پھر استعمال کرو اور پھینکو کا نعرہ فضا میں اچھال دیا۔
طالبان پاکستان کی تخلیق تھے اور ان کے ذریعے پاکستان نے پورے افغانستان کو کنٹرول کرلیا تھا۔ شاید اس لیے امریکا یورپ اور دیگر بڑی طاقتوں نے طالبان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ طالبان کی حکومت کو صرف پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے مگر جنرل نصراللہ بابر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب سے کہا کہ طالبان افغانی تھوڑی ہیں وہ تو پاکستانی بچے ہیں۔ چناں چہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستانی بچوں کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ لیکن نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ انہوں نے پاکستان کے تین ہوائی اڈے امریکا کے سپرد کردیے۔ کراچی کی بندرگاہ امریکیوں کو سونپ دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے سرتوڑ کوشش کی کہ وہ ملاعمر سے اسامہ بن لادن امریکا کو دلوادیں۔ مگر ملا عمر نے جنرل پرویز کی ایک نہ مانی، وہ مسلمان تھے اور انسان تھے اور مسلمانوں اور انسانوں کی روایت یہ ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو دشمنوں کے حوالے نہیں کرتے۔ اس منظرنامے میں جنرل پرویز مشرف نے طالبان کے حوالے سے استعمال کرو اور پھینکو کا نعرہ فضا میں اچھال دیا۔ چناں چہ حکومت پاکستان نے طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنا شروع کیا اور جنرل پرویز کے اپنے اعتراف کے مطابق اس سے کروڑوں ڈالر کمائے۔ اس سلسلے میں ہمارے جرنیلوں نے افغانستان کے سفیر ملا ضعیف تک کو بھی نہ بخشا۔ ملا ضعیف کو سفیر کی حیثیت سے سفارتی استثنا حاصل تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے کسی اخلاقی اصول کی پروا نہیں کی اور امریکیوں نے ملا ضعیف کو ننگا کر کے مارا۔
بدقسمتی سے پاکستانی سیاست کے دائرے میں بھی ہمارے جرنیل استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی تخلیق تھے۔ وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ لیکن جنرل ایوب جب تک بھٹو کو استعمال کرسکتے تھے انہوں نے استعمال کیا پھر اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا۔ 1971ء کے سانحے کے بعد بھٹو پاکستان کی امید بن کر ابھرے۔ وہ بھارت سے 90 ہزار فوجیوں کو واپس لائے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے۔ انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس منعقد کرائی۔
ملک کو 1973ء کا آئین دیا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا تو جنرل ضیا الحق نے قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں نامزد کرکے بھٹو کو پھانسی لگادی۔ محمد خان جونیجو جنرل ضیا الحق کی ایجاد تھے۔ مگر جونیجو سے دو غلطیاں ہوگئیں۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کو اعتماد میں لیے بغیر سوویت یونین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کردیے اور بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق نے استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی کے تحت جونیجو کا سیاسی کیریئر ختم کردیا۔ میاں نواز شریف جنرل جیلانی کی ایجاد تھے اور میاں صاحب جنرل ضیا الحق کو اپنا روحانی باپ کہتے تھے۔ مگر میاں نواز شریف نے سر اٹھایا تو ان کا سر کچل دیا گیا۔ انہیں استعمال کیا گیا اور پھینک دیا گیا۔ الطاف حسین کو جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین بنایا۔ الطاف حسین 35 سال تک کراچی کو اغوا کیے رہے۔ جرنیلوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ الطاف حسین کے 35 برسوں میں کراچی میں 92 ہزار لوگ قتل ہوئے۔ جرنیلوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ الطاف حسین نے کراچی میں بھتا خوری کو عام کردیا اس میں جرنیلوں کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ مگر الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دینی شروع کیں تو استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی ایک بار پھر حقیقت بن کر سامنے آگئی۔ عمران خان بھی جرنیلوں کا پروجیکٹ تھے مگر انہوں نے جرنیلوں کی مزاحمت شروع کی تو انہیں بھی استعمال کرو اور پھینکو کی پالیسی کی نذر کردیا گیا۔