زیر ِ عذاب

657

بہاول پور ہائی کورٹ کے زیر عذاب بابا جی کے مقدمے کی طوالت دس سال تک آپہنچی ہے مگر شنوائی کا عمل دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں اس پیشی پر بھی حسب ِ معمول لیفٹ اوور کا ہتھوڑا چلا دیا گیا، با با جی جو پہلے ہی پیشی در پیشی کے اذیت ناک عمل سے نڈھال ہو چکے تھے، ادھ موئے ہو گئے، کہنے لگے امید تھی آج مقدمہ زیر سماعت ضرور آئے گا کیونکہ ان کا مقدمہ 25ویں نمبر پر تھا مگر جسٹس صاحب نے اڑھائی گھنٹے بعد ہی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا چلا دیا معلومات کے بعد یہ حقیقت عمل میں آئی کہ فریش ریگولر مقدمات کی سماعت کے بعد ریگولر مقدمات کی سماعت کا وقت ہی نہ رہا، بابا جی نے پوچھا یہ کیسا نظام عدل ہے اب سمجھ میں آیا کہ میرا مقدمہ دس برس سے زیر سماعت ہونے کے بجائے زیر عذاب کیوں ہے۔
مہذب ممالک میں سینیارٹی کو اہمیت دی جاتی ہے، پاکستان جو ایک اسلامی ریاست ہے یہاں پر چودھری ریاست کو ترجیح دی جاتی ہے، بابا جی نے ایک آہ بھری اور کہا کہ اگر نظام عدل میں فریش مقدمات کو فوقیت دینے کی روایت برقرار رہی تو میں ختم ہو جائوں گا یا عدلیہ ختم ہو جائے گی مگر یہ خاتمہ بالخیر نہیں ہو گا، بلکہ عدلیہ 139ویں نمبر سے ایک سو چالیسویں نمبر پر آجائے گی، اس خرابی کی اہم اور بنیادی وجہ عدم احتساب ہے، قانون کو تماشا بنانے کا عمل ہے، ہمارے قانون کے مطابق اختیارات سے تجاوز ایک سنگین جرم ہے اور یہ جرم آئین کے آرٹیکل 6کی زد میں آتا ہے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ جج اور جسٹس صاحبان سرپنچ بن کر سائلین کے سر پر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برساتے رہتے ہیں۔
ریڈر صاحبان کا کہنا ہے کہ جسٹس صاحب کیا کریں، مقدمات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور عدالت کا وقت کم ہوتا ہے اسی لیے مقدمات لیفٹ اوور کرنا پڑتے ہیں سوال یہ ہے کہ اتنے مقدمات کیوں پیش کیے جاتے ہیں جن کی سماعت نہیں ہو سکتی اور انہیں لیفٹ اوور کے ہتھوڑے سے کچلنا پڑتا ہے، اور جب کوئی مقدمہ لیفٹ اوور ہوتا ہے تو اگلی پیشی کے لیے کئی کئی ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے یا پھر مک مکا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ جسٹس صاحبان اور ریڈر اگلی پیشی دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے البتہ کچھ ریڈر صاحبان ایسے بھی ہیں جن کی منت سماجت کی جائے تو وہ اگلی پیشی دے دیتے ہیں، اس خرابی اور بد نظمی سے انکار ممکن نہیں مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جج اور جسٹس صاحبان عدالت کو پورا وقت دیں تو لیفٹ اوور کی نوبت ہی نہ آئے۔
بابا جی کی پیشی پر بھی ایسا ہی ہوا، جسٹس صاحب 9بجے تشریف لائے اور ساڑھے 11بجے اپنے چیمبر سدھار گئے، لیفٹ اوور کی ضرب نے سائلین کے قد کو تو دبا دیا مگر مقدمات کے انبار میں اضافہ کر دیا اور اس کا واحد علاج یہ ہے کہ عدلیہ سیاسی معاملات کے بجائے انصاف فراہم کرنے کے بارے میں سوچے تو فوری انصاف کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، مگر المیہ یہی ہے کہ وطن عزیز میں انصاف کی فراہمی ایسے خطوط پر رکھی گئی ہے کہ جن پر جج اور جسٹس صاحبان کے حقوق غالب آجاتے ہیں اور انصاف ان خطوط کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اداروں کے سربراہان قانون پر عملدرآمد کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے فیصلے کیوں کرتے ہیں، حالانکہ قانونی طور پر اختیارات سے تجاوز ایک سنگین جرم ہے مگر وطن عزیز میں کوئی ایسا نظام ہی نہیں جو اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کا احتساب کر سکے، احتساب کے عمل کو اہمیت دی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے تو کوئی بھی صاحب ِ اختیار قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنی بالا دستی قائم نہ کر سکے، آئے دن ایسے واقعات اور خبریں اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں جنہیں پڑھ کر قارئین حیران ہو جاتے ہیں مگر کوئی ایسا میکنزم ہی نہیں جو یہ احتساب کر سکے کہ جس ملزم کو ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی عدالت عظمیٰ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بری کر دیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ دیگر عدالتوں نے کس قانون کے تحت ایک بے گناہ شخص کو 15,20سال تک پابند سلاسل رکھا، وہ بے قصور تھا مگر جج اور جسٹس صاحبان نے اسے مجرم قرار دے کر سزائے موت سنادی، اگر اس بے گناہی کو جرم قرار دینے والوں کو نا اہل قرار دیا جائے تو کوئی بھی جج اور جسٹس سزائے موت سنانے سے پہلے سو بار سوچے گا اور اپنی مرضی کے بجائے قانون کی بالا دستی کو فوقیت دے گا، مگر یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب احتساب کا خوف ہو وطن عزیز میں تو احتساب ممکن ہی نہیں، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے ساتھ جو بد ترین سلوک کیا گیا ہے اسے آئین اور قانون کے ماہرین نے قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، مگر قانون کی بالا دستی کو پیش دستی بنانے والوں کا احتساب نہیں کیا گیا۔ بقول شاعر
راہزنوں سے رہبروں کا راستہ محفوظ ہے
لٹ گیا میرا وطن فیصلہ محفوظ ہے