دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی

755

امریکی کانگریس کے چھیاسٹھ ارکان نے سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن کے نام لکھے گئے خط میں پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد اور سیاسی کشیدگی پاکستان میں سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صور ت حال کو جنم دے سکتی ہے۔ اس خط میں امریکی سیکرٹری خارجہ سے پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی کشیدگی کا گراف جس بلندی کو پہنچ چکا ہے اس پر دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ پہلے پہل تو بیرونی طاقتوں کو یہ ’’ایک صفحے‘‘ پر جاری نورا کشتی ہی معلوم ہوتا رہا مگر ایک سال گزرنے کے بعد اب کشیدگی جس سطح پر آگئی ہے اس نے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ عمران خان جب طاقت میں آئے تو دنیا میں یہ تاثر عام تھا کہ ان کے پیچھے پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہے جو دہائیوں سے دو جماعتی نظام کے ہاتھوں تنگ اور عاجز تھی اور ایک ایسی تیسری قوت کی تلاش میں تھی کہ جو ان دونوں کا سیاسی اثر رسوخ محدود کر سکے۔ میثاق جمہوریت کے بعد ان دو جماعتوں نے شراکت اقتدار یا پارٹنر شپ قائم کی۔ جس نے پاکستان کی اسٹیبشلمنٹ کو مزید خوف زدہ کر دیا تھا کیونکہ ان میں سے ایک جماعت کی حکومت کے خلاف دوسری جماعت کا استعمال کرنے کا لیوریج ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کو حاصل تھا مگر میثاق جمہوریت نے یہ لیوریج ختم کر دیا جس کے بعد اسٹیبشلمنٹ نے زیادہ سرعت کے تیسری قوت کی آبیاری شروع کی۔ اس پس منظر کی بنا پر عالمی حلقوں میں پی ٹی آئی کو ہیئت مقتدرہ کی سیاسی کاپی کہا اور سمجھاجاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں سال بھر کی کشمکش میں فکسڈ میچ ہی کی جھلک دکھائی دیتی رہی مگر رفتہ رفتہ معاملات جس مقام پر پہنچ گئے ہیں اس نے عالمی قوتوں کو بھی چونکا دیا ہے۔
جس دن عالمی ہیئت مقتدرہ کو عمران خان کے حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین بالادستی کے لیے سربکف سیاست دان ہونے کا اندازہ ہوا تو عالمی طاقتیں ان کی بھرپور حمایت کرنے لگیں گی۔ یہ پاکستان کے لیے کسی طور اچھا نہیں۔ اس سے بیرونی قوتوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بے جا کا موقع
ملتا ہے اور عالمی طاقتیں کسی خیر خواہی میں پاکستان کے خیمے میں سر نہیں دیتیں بلکہ ان کا اپنا ایجنڈا اور اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ سائفر لکھنے کے پیچھے بھی ان کے اپنے مقاصد تھے اور اب خطوط اور ٹویٹ کے ذریعے بھی وہ اپنے نئے اہداف اور مقاصد کا حصول چاہتے ہیں۔ پاکستان کے متحارب سیاست دانوں کو اس موڑ پر ایسے رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کہ امریکا سمیت کسی بھی بیرونی طاقت کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع ہی نہ ملے۔ متحارب فریقین کو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ملک میں کم ازکم نکات پر اتفاق کرنا چاہیے تاکہ کشیدگی کا جوہڑ کھل جائے اور حالات کے پانیوں کی روانی شروع ہو۔ امریکی کانگریس کے ارکان کو پاکستان کی ہمدردی اچانک کیوں محسوس ہوئی یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ مگر یہ موقع سیاسی قوتوں نے خود فراہم کیا۔ پاکستان کا سیاسی بحران اب ملکی حدود سے باہر چھلک پڑا ہے اور کئی عالمی ممالک اور تنظیموں نے ملک کی موجودہ مخدوش سیاسی صورت حال پر تبصرے کرنا شروع کیے ہیں۔ بائیس کروڑ سے زیادہ آباد ی، ہندوستان اور چین کے پہلو میں دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان سے دنیا غافل نہیں رہ سکتی۔ پاکستان کے ساتھ عالمی قوتوں بالخصوص مغرب کی ایک عجیب حساسیت وابستہ ہے اور اس حساسیت کا آغاز پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور ہی سے شروع ہو ا ہے جب وہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک اعلان کرنے سے پہلے ہی ایک گولی کا شکار ہو گئے۔ سید اکبر نامی ایک پراسرار شخص کو لیاقت علی خان کی ان کہی بات پر اتنا غصہ آگیا اس نے ان کے برادران ِ ملت کہتے ہی گولیاں چلا دیں۔ پاکستان اور پولٹیکل اسلام کو بہم ملنے نہیں دینا طے یہی ہو ا ہے اور یہی اس حساسیت کی بنیاد ہے۔
پاکستان سے بغاوت اور حریت کی وائبز آئیں تو یہ ایک ڈراونا خواب ہوتا ہے۔ پاکستان کے گھسٹ کر چلنے کا کردار مغرب کو پسند ہے اور اس کے پر لگا کر اُڑنے کی خواہش ایک ریڈ لائن ہے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا بھی ایسی ہی ریڈ لائن کو عبور کرنے کے مترادف تھا اور پھر اس منصوبے کے سرمایہ کاروں، سہولت کاروں، سرپرستوں، معاونین سائنس دانوں کا کیا انجام ہوا دنیا کے لیے عبرت کا سامان ہے۔ شاہ فیصل اور معمر قذافی اس کے سرمایہ کار سمجھے جاتے تھے تو انہیں کس انجام سے دوچار ہونا پڑا؟ ذوالفقار علی بھٹو اس کے بانی تھے ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ضیاء الحق نے اس منصوبے کی تکمیل کی تو وہ کس انجام کو پہنچے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس پروگرام کی پہچان اور شناخت اور ملک کے غیر متنازع ہیرو تھے زندگی کے آخری ماہ وسال کس طرح ایک قیدی کی طرح جئے اور قیدی کی طرح فوت ہوئے یہ بھی دنیا کے سامنے عیاں ہے۔
یہ پاکستان کی اہمیت اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں سے بیرونی دلچسپی کی پر پیچ کہانی کے موڑ ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرح پاکستان کی جدید اور منظم فوج بھی بیرونی طاقتوں کا ہدف رہی ہے۔ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہے اور حکومت سب سے مقبول شخصیت کو دبانے اور محدود کرنے کے لیے طاقت اور قوانین سمیت ہر حربہ اختیا رکر چکی ہے۔ یہ تجربات ماضی میں ہوتے چلے آئے ہیں مگر اس سے ملک کو کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک ہر دور میں ایک مقبول لیڈر کو مائنس کرنے کو پاکستان کی ترقی بہتری فلاح اور خوش حالی کے لیے ضروری گردانا گیا مگر وقت کی گرد بیٹھ جانے پر یہ خیال غلط ثابت ہوا اور اندازہ ہوا کہ پاکستان کے پہاڑ جیسے مسائل کوہ ہمالیہ میں ڈھل گئے ہیں۔ ہر دور میں نت نئے غدار تراشے گئے اور پوری قوم کا دھیان ان غداروں کی جانب موڑا گیا مگر وقت بدلا تو بیتے ہوئے کل کے غدار آج کے وفادار قرار پائے۔ تجربات کی اس مشق نے پاکستان کو آگے کے بجائے ترقی معکوس کی راہوں کا مستقل راہی بنا ڈالا اور درد وکرب کی کہانی یہ ہے کہ آج پاکستان کی کرنسی منقسم اور منظم حکومت سے محروم اور عشروں سے خانہ جنگی کا شکار ملک افغانستان سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ حال ہی میں دیوالیہ ہونے والا جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا اپنی کرنسی کو سنبھال چکا ہے مگر پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے بھی گر گئی ہے۔ پاکستان کی اس صورت حال پر یہی کہا جا سکتا ہے
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یا دوسرے انداز میں
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
پاکستان کی نئی نسل اپنے ملک کی اس حالت زار پر کڑھتی چلی آرہی ہے۔ آخر پاکستان کے ساتھ کب کہاں اور کیسے یہ واردات ہوئی اور اس ملک کی گاڑی کا کانٹا کس نے بدلا کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہوچکی ہے۔ اب بھی وقت ہے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کی ترقی اور استحکام اور اسے دوبارہ عروج عطا کرنے کے لیے ایک معاہدہ کرنا چاہیے۔ بھلے سے وہ معاہدہ کاغذ پر تحریری شکل میں نہ ہو مگر یہ اصولی طور پر طے کیا جانا چاہیے کہ پاکستان کو کس سمت میں کس انداز اور کس رفتار سے آگے بڑھنا ہے۔