میٹرو بسیں یا شہروں کی تقسیم

598

پاکستان میں اب تک بننے والی جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں، ان میں کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں جس نے عوام کو سہولتوں کے نام پر پریشانیاں، دقتیں، مشکلات اور تکالیف کے علاوہ کچھ اور فراہم کیا ہو۔ اس میں لطف کی بات یہ ہے کہ عوام نے ہر اذیت کو راحت و نعمت خداوندی سمجھتے ہوئے اپنی اپنی پسندیدہ حکومتوں کے قصیدے ہی پڑھے لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہر نعمت اور حکومتی کارکردگی کے بدلے ان کو کیا کیا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
عوام کے بہت سارے مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ شاہراہوں یا ریلوے لائن سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ راستے مخدوش یا شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں تو ان پر اچھی گاڑیوں کو رواں رکھنا یا آرام دہ سواریوں کو چلانا یقینا ناممکن ہی ہوتا ہے۔ جب پاکستان غریب ہوا کرتا تھا، پورے ملک کی اہم شاہراہوں تک کا بہت ہی برا حال تھا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا سفر تو بہر لحاظ بہت ہی تکلیف دہ تھا، حتیٰ کہ شہر کے اندر گاڑیوں کو چلانا ایسا ہی تھا جیسے چاند کی سر زمین پر چاند گاڑی کا چلانا۔ کوئی ایک راستہ بھی ایسا نہیں تھا جو بہت بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو۔ جیسی سڑکیں اور ٹوٹے پھوٹے راستے ہوا کرتے تھے اتنی ہی بد شکل گاڑیاں ان پر چلا کرتی تھیں جس میں سفر کرنے والوں کی ہڈیاں پسلیاں ایک ہو کر رہ جایا کرتی تھیں۔ آہستہ آہستہ اندرونِ شہر اور ایک شہر سے دوسرے شہر کے راستے بہتر ہونا شروع ہوئے تو آرام دہ گاڑیوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ شروع شروع میں اچھی سڑکوں کا نام ’’جی ٹی روڈ‘‘ ہوا کرتا تھا، پھر ایک سپر ہائی وے نام کی سڑک بنا دی گئی۔ یہ سڑک ایک مثالی سڑک کہلایا کرتی تھی جو کراچی تا حیدرآباد جانے کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ جب بھی کسی دوسرے شہر کی گاڑی تمام گزرگاہوں کی ٹھوکریں، دھکے اور ہچکولے کھا کھا کر سپر ہائی وے میں داخل ہوا کرتی، ڈرائیور اتنے پاگل ہو جایا کرتے تھے کہ بھولے سے اگر ان کی نظر اسپیڈو میٹر پر پڑ جاتی تو گاڑی پر قابو پانا مشکل ہو جایا کرتا تھا۔
یہی حال ریلوے لائینوں کا اور ریل گاڑیوں کا تھا۔ نہ ہی ریل گاڑیاں معیاری تھیں اور نہ ہی لائنیں اتنی اعتماد والی کہ گاڑیوں کو تیز رفتاری سے گزارا جا سکے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ریلوے لائنوں اور شاہراہوں کی قسمت بدلنا شروع ہوئی۔ ٹریک بے شک انگریزوں کے دور ہی کے رہے لیکن ان کو بہتر کرکے اس قابل ضرور کر لیا گیا کہ ان پر آرام دہ اور تیز رفتار ٹرینوں کو دوڑایا جا سکے۔ یہی حال شاہراہوں کا بھی دیکھا گیا کہ وہ بہتر سے بہتر ترین ہوتی گئیں۔ موٹرویز کا جال بُنتا چلا گیا اور اب عالم یہ ہے کہ تقریباً کراچی سے پشاور تک اچھی اور معیاری شاہراہوں کا اندرونِ شہر اور شہر سے دوسرے شہر تک سفر آرام دہ، تیز رفتار اور ہر قسم کی اذیت سے پاک ہو گیا ہے۔ ریلوے ٹریک اور شاہراہوں کے بعد ایک قدم اور بھی اٹھایا گیا جو بہر لحاظ قابل ِ ستائش ہے کہ پاکستان کے بڑے شہر میں میٹر بس سروس کے نام سے ایسی سروسز شروع کی گئیں جن میں شہریوں کے لیے تیز رفتار، محفوظ اور آرام دہ سفر کی سہولتیں موجود ہیں۔ ان سب اچھے اقدامات نے جہاں سفر باوقار بنا دیا وہیں اس کے مقابلے میں لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا جس کو ہر خاص و عام محسوس تو ضرور کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں کہیں سے کوئی ایک صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر نہیں آتی۔
ریلوے کا نظام غالباً سب سے بڑا اور پرانا ہے۔ یہ ایک محفوظ ترین سفر کا ذریعہ ضرور ہے لیکن اس نے پاکستان کے ہر شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ لائین کے اِس جانب اور اُس جانب جانے کے لیے یا تو پل تعمیر کیے گئے ہیں یا جگہ جگہ ریلوے گیٹ لگا کر گزر گاہیں بنائی گئی ہیں۔ کیونکہ ان کو قریب قریب نہیں بنایا جا سکتا اس لیے سواریوں کو فاصلے طے کر کے آنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے آمد و رفت کے علاوہ خرید و فروخت میں بہر کیف عوام شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک شہر سے دوسرے شہر کے لیے جو شاہراہیں پہلے ہوا کرتی تھیں وہ بھی کافی حد تک شہروں کو تقسیم کرتی نظر آتی تھی لیکن جب سے موٹر ویز تعمیر ہوئی ہیں، کوئی ایک سواری بھی مقررہ راستوں جن کو ’’انٹر چینج‘‘ یا اور ہیڈ برج کہا جاتا ہے، کے بغیر شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی جانب جا ہی نہیں سکتی۔ فی زمانہ ایک آفت میٹرو بسوں کی گزر گاہوں کی صورت میں بھی ایسی نازل ہوئی ہے جس نے شہروں کو مکمل طریقے سے دو حصوں میں اس بری طرح بانٹ کر رکھ دیا ہے کہ پیدل سفر کرنے والا بھی شہر کے ایک حصے سے دوسری جانب نہیں جا سکتا۔ کہیں پل موجود ہیں اور کہیں پل ہے ہی نہیں۔ جس جگہ پل نہیں ہیں وہاں زبردست جنگلے لگے ہوئے ہیں جہاں سے کسی کا گزرنا ممکن ہی نہیں۔
پرانے ریلوے ٹریک ہوں یا عام شاہراہیں، بے شک وہ ایک طویل عرصے سے شہروں کی تقسیم کا سبب ضرور بنی ہوئی تھیں اور ان پر بھی گاڑیوں کا شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی جانب جانا ہر جگہ سے ممکن نہیں تھا پھر بھی اتنا ضرور تھا کہ پیدل چلنے والوں کے لیے ہر راستہ ہر جگہ سے گزرنے کے قابل تھا لیکن میٹرو بسوں کے چلنے کی وجہ سے اب یہ ممکن ہی نہیں کہ شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی جانب جایا جا سکے۔ پیڈسٹیرین برج ضرور ہیں لیکن وہ ہر جگہ کافی فاصلے پر ہیں اور ہر عمر اور صحت والوں کے لیے ان پر چڑھ کر دوسری جانب جانا آسان نہیں۔ موٹرویز ہوں یا شہروں میں چلائی جانے والی میٹرو سروسز، ان سب کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو اس قسم کی منصوبہ سازی کرنے سے قبل ان مسائل کو سامنے رکھ کر ان کا حل تلاش کرنا چاہیے تھا اور جہاں جہاں یہ تعمیرات ہو چکی ہیں وہاں وہاں اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے ورنہ آنے والے وقتوں میں شہری مسائل اور بھی گمبھیر صورت اختیار کرتے جائیں گے۔