شنگھائی کانفرنس، سب کچھ متوقع تھا

620

شنگھائی تعاون تنظیم کے بھارت میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ جو ہوا قطعی غیر متوقع نہیں تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی تاریخ کی جس بلند ترین سطح پر جا کر رک گئی ہے وہاں کوئی ایک دورہ، ایک مسکراہٹ، ایک مصافحہ، ایک پرنام اور معانقہ حالات میں کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔ کشیدگی کے اس گلیشیر کو پگھلانے کے لیے ایسی پس پردہ سفارت کاری ہی کارگر ہو سکتی ہے جسے اگلے مراحل میں بھارت کی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان اچانک کشیدگی کی برف پگھلی تو اس کے پیچھے خاموش سفارت کاری رہی ہے۔ چند ہی برس پہلے کھٹمنڈو میں جنرل مشرف کے واجپائی کے ساتھ اچانک مصافحے نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی برف پگھلا دی تھی تو اس کے پیچھے امریکا کی پس پردہ سفارت کاری تھی۔ امریکا نے بھارت کی قیادت کو یہ باور کر ادیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف اب کارگل والے نہیں رہے بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ زخموں پر مرہم رکھنے پر آمادہ ہو چکے ہیں یا انہیں اس بات پر آمادہ کیا جا چکا ہے۔ اس لیے بھارت ان سے نالاں اور ناراض ہو کر نہ رہے اور یوں طے شدہ منصوبے کے تحت جنرل مشرف سارک کے اجلاس سے خطاب کر کے ڈائس سے اُترے تو اسٹیج پر بیٹھے اٹل بہاری واجپائی کے سامنے کھڑے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ واجپائی لڑکھڑاتے ہوئے اُٹھے اور ہاتھ آگے بڑھا کر مصافحہ کیا۔ اس کے بعد امریکی گارنٹی نے واقعی اپنا کام دکھایا۔
جنرل پرویز مشرف نے کارگل والے مشرف کو برف پوش وادیوں ہی میں چھوڑ کر شاہراہ دستور کا جنرل مشرف بننے کا فیصلہ کیا اور واجپائی کے بعد ان کے جانشین من موہن سنگھ کے ساتھ ان کی ایسی کیمسٹری مل گئی کہ چہار سو امن کے ترانے گونجنے لگے۔ اسی طرح کرکٹ ڈپلومیسی کے طور پر جب بھی پاکستان کا کوئی حکمران بھارت میں اُتر ا تو بھارت کی طرف سے قبولیت کے کھلے اظہار کے بعد ہی یہ ممکن ہوا۔
بظاہر سب کچھ اچانک اور حیران کن ہوتا تھا مگر حقیقت میں یہ ایک اسکرپٹ کے تحت ہونے والی اداکاری تھی۔ اس بار بلاول زرداری کا بھارت جانا ایک عجیب ماحول میں ہوا۔ امریکا یا کسی دوسرے ملک کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان پس پردہ سفارت کاری کے آثار نہیں اگرچہ جنرل باجوہ کے دور میں اس سفارت کاری کا سراغ ملتا ہے مگر اس پالیسی کا سقوط ہوچکا ہے اور اسے اسی دور میں پاکستان کے سیاسی ایوانوں سے سند قبولیت حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ جنرل باجوہ کی رخصتی کے بعد یہ پالیسی لاوارث اور بے نام ونسب ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت میں نریندر مودی حکومت کا رویہ اور مخصوص ذہنیت ہے۔ جس میں اس سوچ کا گہرا دخل ہے کہ پاکستان اب اپنے حالات کے باعث کمزوری اور ضعف کے اس مقام پر پہنچ گیا جو قیام پاکستان کے وقت ہی سے بھارتی قیادت کا خواب تھا۔ اس لیے پاکستان کے ساتھ اس مرحلے پر تعلقات کی بحالی اور اس کی بات کو وزن دینا حالات کے بھنور سے نکلنے میں مدد دینا ہے۔ انتہا پسند ہندو ذہنیت کے مطابق اس سے آگے پاکستان کے اب عروج کا راستہ باقی نہیں۔ یہ ہندو ذہنیت پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتی ہے۔ اس لیے بھارت مودی کے دور میں پاکستان کے ساتھ کسی نرم رویے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا۔ امریکا تقریباً یہ کہہ کر حالات سے اپنے ہاتھ کھڑے کر چکا ہے کہ وہ اپنے طور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر نہیں کرا سکتا۔ ماضی میں امریکا دونوں ملکوں کی دعوت کا انتظار کیے بغیر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے تعلقات بحال کر اتا رہا۔ جنرل فیض اور اجیت دووال کی دوبئی میں ہونے والی ملاقاتوں سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ امریکا نے عربوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے اصل فیصلہ سازوں کو آمنے سامنے بٹھا کر اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کا موقع دیا مگر وہ کسی سطح پر سامنے نہیں آئے۔ یہ بھی ہاتھ کھڑے کرنے کا ہی انداز تھا۔ امریکا کی اس لاتعلقی کی وجہ مودی کی سخت گیر پالیسی ہے۔
امریکا کی فوری دلچسپی اس میں ہے کہ دونوں ملکوں میں کوئی بڑا تصادم نہ ہو تعلقات بحال ہوتے ہیں یا نہیں اور مسائل حل ہوتے ہیں یا نہیں اس کی بلا سے۔ اس ماحول میں بارہ سال بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت جانا اور وہ بھی کسی پس پردہ ڈپلومیسی اور پیشگی یقین دہانی کے بغیر ایک بے سود عمل تھا۔ اس سے بلاول کا بطور وزیر خارجہ پروفائل تو شاید مضبوط ہوا مگر اس سے بطور مجموعی ان کی امیج بلڈنگ مہم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور پاکستان تو بس دہشت گردی کے الزامات کی ہی زد میں رہا۔ بلاول کو ان حالات میں بھارت جانا چاہیے تھا یا نہیں یہ بحث چلتی رہے گی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم چین اور روس کے اثر رسوخ کی حامل ایشیائی تنظیم ہے اس میں پاکستان کی غیر حاضری درست فیصلہ نہ ہوتا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ پاکستان اس اجلاس سے الگ رہتا تو بھی کچھ نہ ہونا تھا کیونکہ چین اور روس دونوں کو اس وقت پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی خرابی کی سطح کا بخوبی اندازہ بھی ہے اور پاکستان کی اندرونی صورت حال سے بھی واقف ہیں جہاں پہلے حکومت خاصی غیر مقبول ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک وسط ایشیائی ملک میں افغانستان پر ہونے والی شنگھائی کانفرنس میں پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی تو اس سے کوئی آسمان نہیں گرا۔
کسی پیشگی یقین دہانی کے بغیر بلاول گوا پہنچے انہوں نے پاکستان کا موقف بھی پیش کیا۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت نے رسمی طور پر کسی دبائو میں پاکستان کو دعوت نامہ تو بھیج دیا مگر وہ ذہنی طور پر پاکستان کے کسی نمائندے کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ان کے لیے پاکستانی کو گوا میں دیکھنا ایک ناگوار فریضہ تھا۔ جس کا عملی ثبوت بھارت کے رویے سے ہوتا رہا۔ بھارتیوں کا پاکستانی وزیر خارجہ سے روکھا پھیکا رویہ پوری طرح نوٹ کیا گیا۔ اپنی تقریر میں بھی بھارت کے گھاک وزیر خارجہ جے شنکر نے اصل زور دہشت گردی پر صر ف کیا اور جب بھارت دہشت گردی کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب دوٹوک انداز میں پاکستان ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ سرحد پار کی دہشت گردی سمیت اس برائی کو کسی بھی شکل میںجائز ٹھیرانے اور پالنے کی روایت کا بلاتفریق خاتمہ ہونا چاہیے کوئی ابہام بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ بلاول زرداری نے بھی دہشت گردی کو سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کرنے کی بات کی مگر عملی طور پر ان کا دورہ یک طرفہ مسکراہٹ اور فوٹو سیشن سے زیادہ بارآور نہ ہو سکا۔ جو کسر فریقین کی باڈی لینگوئج میں باقی رہ گئی تھی اسے ایس کے شنکر نے میڈیا کے سامنے زبان سے پورا کر دیا۔ ایس جے شنکر نے برملا تسلیم کیا کہ بلاول کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا دہشت گردی پھیلانے والے ملک کے نمائندے کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح پہلی بار پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی برف پگھلتی ہوئی نظر نہ آئی۔ امریکا پس پردہ ڈپلومیسی سے سردست الگ ہے چین کو بھارت ابھی اسپیس دینے کو تیار نہیں کیونکہ چین خود اس کشیدگی کا فریق ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول کا ایس جے شنکر کو ہاتھ جوڑ کر ’’پرنام‘‘ جنرل مشرف کے واجپائی کے ساتھ مصافحہ کی شکل میں سلام تک نہ پہنچ سکا اور حالات شکیل بدایونی کے اس شعر کی تصور بن کر رہ گئے۔
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے