نظم اجتماعی کی تدبیر

1187

سیاست ملک، قوم اور ملت کے ’’نظمِ اجتماعی‘‘ کی تدبیر اور تنظیم کا نام ہے، یعنی ملک، قوم اور ملت کے نظمِ اجتماعی کو ایک آئینی اور دستوری ضابطے کے تحت لانا، مصلحتِ عامّہ اور مفادِ عامّہ میں قوانین مرتب کرنا اور انہیں ریاست کی قوتِ نافذہ سے ملک میں نافذ کرنا ہے۔ اس کا مقصد لاقانونیت اور انتشار کا خاتمہ اور ملک کے تمام شعبوں میں عدلِ اجتماعی کا قیام ہے۔ اس کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں، موجودہ دور میں اس کے ادارے حسبِ ذیل ہیں: پارلیمنٹ یا مقنِّنہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ قوانین اور پالیسیوں کی تنفیذ کے لیے انتظامی مشینری کا قیام اور آئین وقانون کے دائرے میں ریگولیٹ کرنے کے لیے عدالتوں کا قیام ضروری ہوتا ہے۔ سیاست تب فیض رساں ہوتی ہے، جب ریاست کے سارے ستون اور ادارے اپنے اپنے دائرۂ کار میں کام کریں اور دوسروں کے دائرۂ اختیار میں دخل اندازی نہ کریں، اگر دوسروں کے دائرۂ اختیار میں تجاوزات کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے نتیجے میں ریاست کمزور ہوگی، دستور نے ریاست کے ستونوں میں جو توازن قائم کیا ہے، وہ درہم برہم ہوگا، اس کا نتیجہ تصادم، انتشار اور انارکی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ میزانِ عدل کا جھکائو کسی ایک طرف ہوا تو اُسے ظلم، جانبداری اور حق تلفی سے تعبیر کیا جائے گا۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کے نظمِ اجتماعی سے متعلق امور کی تدبیر انبیائے کرام فرماتے تھے، جب ایک نبی وصال فرماتا تو اُس کی جگہ دوسرا نبی آتا اور یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لہٰذا میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘، (بخاری) علامہ علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’یعنی لوگوں کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر کرنا جیسے اُمرا اور والیان ریاست رعایا کے ساتھ کرتے ہیں‘‘، سیاست کے معنی ہیں: ’’کسی کے لیے ہروہ کام کرنا جس میں اُس کی مصلحت یعنی فائدہ ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح) اس حدیث کی شرح میں علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں: ’’سیاست سے مراد اُن امور کا اہتمام کرنا جن میں امت کی مصلحت ومفاد ہو اور یہ اس لیے کہ جب بنی اسرائیل میں فساد برپا ہوتا تو اللہ تعالیٰ دفعِ فساد کے لیے نبی بھیجتا جو اُن کے معاملات کو راستی پر قائم رکھتا اور تورات کے احکام میں جو تحریف وہ کرچکے ہوتے، اُن کا ازالہ فرماتا‘‘۔ (عمدۃ القاری)
انبیاء کی سیاست کاری کی مندرجہ بالا حکمت بیان کرنے کے بعد اس کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں: ’’اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رعایا کے لیے اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ اُن کے نظمِ اجتماعی کے معاملات کو راستی پر قائم رکھا جائے، مظلوم کو ظالم سے انصاف دلایا جائے، ’’بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘ نبی کریمؐ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں تجدید واحیائے دین کا فریضہ علماء انجام دیں گے‘‘۔ (فتح الباری، ملخصاً)
علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ’’سیاست کے معنی ہیں: کسی چیز کے لیے وہ کام کرنا جس میں اُس کی صَلاح اور فائدہ ہو، سیاست سائس کا کام ہے جو مویشیوں کو اُس کام کے لیے سِدھاتا ہے، تربیت کرتا ہے، جس کے لیے اُن کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
عہدِ نبوت میں اللہ کے نبی امت کے تمام امور کے نگہبان تھے، وہ مامور من اللہ تھے، ان پر اللہ کی طرف سے احکام کا نزول ہوتا تھا، وہ امت کے اجتماعی امور کی تدبیر فرماتے تھے، چونکہ اُن پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی، اس لیے اُن سے خطا واقع نہیں ہوتی تھی اور اُن کی ہدایت کو عقل کی روشنی میں ردّ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آپ کے بعد خلافتِ راشدہ کے دور میں سب سے پہلے خلیفۂ ثانی سیدنا عمرِ فاروقؓ نے ریاست کے بہت سے شعبوں کو ادارتی شکل دی اور انسانیت بتدریج ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے موجودہ مقام تک پہنچی ہے۔
آپؐ کے بعد امت کے اتفاقِ رائے سے آپ کے خلفائے کرام نے نظمِ اجتماعی کو سنبھالا اور آپ کے سب سے پہلے خلیفۂ راشد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے اصول اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں متعیّن کرتے ہوئے حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا: ’’لوگو! مجھے تم پر حاکم بنادیا گیا ہے، حالانکہ میں اس بات کا دعویدار نہیں ہوں کہ میں تم سب سے بہتر ہوں، پس اگر میں راہِ راست پر چلوں توتم پر میری مدد کرنا لازم ہے اور اگر (بالفرض) میں راہِ راست سے بھٹک جائوں تو تم مجھے سیدھا کردو، سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے، تم میں سے جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ میں ظالم سے اس کا حق چھین کر اسے لوٹادوں اور تم میں سے جو طاقتور ہے، وہ میرے نزدیک کمزور ہے تاوقتیکہ میں اس سے مظلوم کا حق چھین لوں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جس قوم میں فحاشی فروغ پاتی ہے، اللہ اس پر آفتیں نازل فرماتا ہے اور جو قوم شعارِ جہاد کو چھوڑ دیتی ہے، اس پر ذلّت مسلّط کردی جاتی ہے، سو اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر (بالفرض) میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ہے، کیونکہ کسی ایسے معاملے میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے، جس میں اللہ کی نافرمانی لازم آئے‘‘۔
اس خطبے میں ریاستِ اسلامی کا سارا فلسفہ اور حکومت کے فرائض کو بیان کردیا گیا ہے: حکومت کی اولین ذمے داری عدلِ اجتماعی کا قیام ہے، ظلم کی طرف بڑھنے والے ظالم کے ہاتھ کو جھٹکنا اور مظلوم کی داد رسی کرنا ہے، معاشرے میں عفّت، حیا اور تقوے کو فروغ دینا ہے، جہاد کے شِعار کو جاری رکھنا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو جادۂ مستقیم پر کار بند رہنا ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جواب دہ ہے‘‘، (بخاری) پھر آپؐ نے تمام شعبوں کی تفصیل بیان فرمائی۔
ہماری دینی درسیات میں فلسفے کی تعریف یہ بتائی جاتی تھی: ’’چیزوں کی حقیقت وماہیت کو، جیسا کہ وہ ہیں، جاننے کا نام فلسفہ ہے‘‘، پھر اس کی تین قسمیں ہیں: (۱) تہذیبِ نفس، یعنی فرد کی اپنی اصلاح اور علم کے حصول کا اولین مقصد بھی نفس کی اصلاح ہے، تہذیب کے لفظی معنی ہیں: ’’مختلف جہات میں پھیلی ہوئی درخت کی بے ہنگم شاخوں کی کانٹ چھانٹ کرنا تاکہ درخت زمین سے نمی کی صورت میں جو توانائی حاصل کرتا ہے، وہ منقَسم ہوکر ضائع نہ ہو اور درخت صحیح سَمت میں پروان چڑھتا رہے‘‘۔ پس تہذیبِ نفس کے معنی بھی یہی ہیں: ’’انسان کے نفس کو خواہشاتِ باطلہ کی جھاڑ جھنکار سے پاک وصاف کر کے صحیح نشوونما کا موقع دیا جائے تاکہ وہ نفسِ لوّامہ سے ارتقا کرکے نفسِ مطمئنّہ کی منزل کو پاسکے‘‘، (۲) تدبیرِ منزل: اس سے مراد خاندان سے لے کر اداروں تک اپنے دائرۂ کار واختیار میں معاملات کواحسن طریقے سے چلانا، (۳) سیاستِ مُدَن: ’’یعنی رعایا کی صلاح وفلاح اور بہبود کے لیے مملکت اور حکومت کے نظمِ اجتماعی کی احسن طریقے سے تدبیر کرنا، بندے کے خَلق اور خالق کے ساتھ روابط کو صحیح سَمت میں استوار کرنا، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی رعایت کرنا، معاشرے میں عدلِ اجتماعی کو قائم کرنا۔
اگر مسلمانوں کو زمین میں اقتدار مل جائے تو اُن کی ذمے داریوں کی بابت فرمایا: ’’ان لوگوں کو اگر ہم زمین میں اقتدار عطا فرمائیں تو (لازم ہے کہ) وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔ (الحج: 41) اس سے معلوم ہوا کہ نظمِ اجتماعی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جن کے نفاذ اور اُن کے نتائج کے حصول کے لیے قوتِ نافذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
الغرض سیاست فریضۂ نبوت ہے، شِعارِ نبوت ہے، لہٰذا مسلمانوں کے زمامِ اقتدار کو سنبھالنے کے لیے بھی کوئی معیار ہونا چاہیے، ’’سیدنا ابوذر نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ مجھے کسی علاقے کا حاکم کیوں نہیں بنالیتے، آپؐ نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: اے ابوذر! تم کمزور ہو اور اِمارت ایک امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہوگی، سوائے اس کے کہ جو اس کا حق ادا کرے اور اس کی ذمے داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہو‘‘۔ (مسلم)
مگر ہمارے ہاں اب سیاست دشنام ہے، اتّہام ہے، الزام ہے، مفادات کا سمٹائو ہے، اختیارات کو اپنی ذات میں مرکوز کرنا ہے، دَجل ہے، فریب ہے، عیّاری ہے، اسی لیے کوئی کسی سے دَجل وفریب کرے تو اردو محاورے میں کہتے ہیں: ’’میرے ساتھ سیاست نہ کرو‘‘، گویا سیاستِ دوراں دیانت وامانت کی ضد ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کے سپرد کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں کتنی عمدہ نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے، اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں، پھر اگر کسی بات میں تمہارا اُن سے اختلاف ہوجائے تو معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو‘‘، (النسآء: 58-59) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت غیر مشروط ہے، ہر حال میں اس کی تعمیل لازم ہے اور اس میں کسی چون وچِرا کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن حاکمِ وقت کا ہر حکم قطعی حجت نہیں ہے، دلیلِ حق کی بنیاد پر اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور حتمی فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا۔ آج کے دور میں حاکم کا اطلاق صدر، وزیرِ اعظم، وزرائے اعلیٰ الغرض ریاست کے تمام اداروں کے سربراہان، ہر درجے کے عُمّال اور منصبِ قضا پر فائز قُضاۃ سب پر ہوتا ہے، کسی قاضی القُضاۃ یعنی چیف جسٹس کی بات بھی حرفِ آخر نہیں ہے، اس پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے اور اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس حقِ اختلاف سے بچنے کے لیے ’’توہینِ عدالت‘‘ کے قانون کو ڈھال بنادیا جائے تو یہ منصب کا ناجائز استعمال ہے اور حق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
رسول اللہؐ سے سوال ہوا: قیامت کب آئے گی، آپؐ نے فرمایا: جب امانت ضائع کردی جائے گی، سائل نے پوچھا: امانت کیسے ضائع ہوگی، آپؐ نے فرمایا: جب مسلمانوں کے امور نااہلوں کے سپرد کردیے جائیں، تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری: 59)