پاکستان اور اس کا نظامِ عدل

686

ایک شخص ایک ذبح کی ہوئی مرغی لے کر مرغی فروش کی دکان پر آیا اور کہا کہ بھائی اس کو کاٹ کر مجھے دے دو۔ مرغی فروش نے کہا، مرغی رکھ جاؤ، آدھ گھنٹے بعد لے جانا۔ اتفاق سے مرغی کے مالک کے جاتے ہی شہر کا قاضی آ گیا اور دوکاندار سے کہا یہ مرغی مجھے دے دو۔ دوکاندار نے کہا، یہ مرغی میری نہیں کسی کی ہے۔ قاضی نے کہا کوئی بات نہیں، یہی مجھے دے دو، مالک آئے تو کہنا مرغی اڑ گئی ہے۔ دوکاندار نے کہا کہ یہ مرغی مالک خود ذبح کر کے دے گیا تھا، وہ کیسی اڑ سکتی ہے۔ قاضی نے کہا بس تم مجھے دے دو زیادہ سے زیادہ مالک میرے پاس تمہارا مقدمہ لے کر آئے گا تو میں اسے خود جواب دے دوں گا۔ مرغی فروش کیا کرتا، مرغی قاضی کو دینی پڑ گئی۔ اتنے میں مرغی کا اصل مالک آیا تو دکاندار نے کہا کہ تمہاری مرغی اڑ گئی ہے جس پر نوبت جب لڑائی جھگڑے تک پہنچی تو دکاندار نے کہا چلو قاضی کے پاس چلتے ہیں، وہاں جو فیصلہ ہوگا اس کے مطابق عمل کریں گے۔ عدالت جاتے ہوئے دونوں نے راستے میں دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ان میں ایک مسلمان ہے اور دوسرا یہودی۔ چھڑانے کی کوشش میں مرغی فروش کی انگلی یہودی کی آنکھ میں جا لگی جس کی وجہ سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا اس طرح اس پر دو مقدمے ہو گئے۔ جیسے ہی وہ عدالت کے قریب پہنچے مرغی فروش اپنے آپ کو چھڑا کر
بھاگ نکلا۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا تو وہ بھاگ کر ایک مسجد میں گھس کر اس کے مینار پر چڑھ گیا۔ جب لوگ اسے پکڑنے کے لیے مینار پر چڑھنے لگے تو اس نے مینار سے چھلانگ لگادی۔ وہ مینار سے ایک بوڑھے پر گرا، خود بچ گیا لیکن بوڑھا مر گیا۔ قریب ہی اس کا بیٹا تھا اس نے لوگوں کی مدد سے مرغی فروش کو پکڑ کر قاضی صاحب کے سامنے پیش کر دیا۔ قاضی نے جب مرغی فروش کو دیکھا تو اسے ہنسی آ گئی کیونکہ اسے مرغی یاد آ گئی تھی لیکن ابھی وہ باقی دو کیسوں سے بے خبر تھا۔ جب اس نے تین مقدموں کا احوال سنا تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ قانون کی موٹی موٹی کتابوں کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد کہا کہ ہم تینوں مقدموں کا فیصلہ آج اور ابھی سناتے ہیں۔ سب سے پہلے مرغی کے مالک کو پیش کیا جائے۔ جب مرغی کا مالک آیا تو قاضی نے کہا، کہو کیا بات ہے۔ اس نے کہا قاضی صاحب مرغی فروش چور ہے۔ میں نے مرغی اپنے ہاتھ سے ذبح کرکے اسے دی تھی اور وہ کہہ رہا ہے کہ وہ اڑ گئی، بھلا ذبح کی
ہوئی مرغی بھی اڑ سکتی ہے۔ قاضی نے مرغی کے مالک کی بات سن کر کہا کیا تمہیں اللہ کی قدرت پر بھروسا نہیں، مالک نے کہا کیوں نہیں، پورا یقین ہے۔ قاضی نے کہا وہ تو بوسیدہ ہڈیوں تک کو جوڑ کر مردہ کو زندہ کر سکتا ہے تو وہ تمہاری ذبح کی ہوئی مرغی کو کیوں نہیں زندہ کر کے اڑا سکتا۔ یہ سن کر مرغی کا مالک خاموش ہو گیا اور اس نے اپنا کیس واپس لے لیا۔ دوسرے کو حاضر کیا جائے، قاضی نے حکم دیا۔ یہودی حاضر ہوا اور اس نے کہا مرغی فروش نے انگلی مار کر میری ایک آنکھ ضائع کردی ہے، میں بھی انگلی مار کر اس کی ایک آنکھ ضائع کروں گا۔ قاضی نے کچھ سوچ کر کہا کہ مسلمان کے مقابلے میں غیر مسلم کی دیت آدھی ہوتی ہے لہٰذا پہلے مسلمان تمہاری دوسری آنکھ بھی پھوڑے گا تب تم اس کی ایک آنکھ پھوڑ دینا۔ یہ سن کر یہودی نے کہا کہ رہنے دیں، اور اپنا کیس واپس لے لیا۔ آخر میں بوڑھے باپ کے بیٹے نے کہا کہ مرغی فروش نے مینار سے چھلانگ لگائی، نیچے میرا باپ تھا۔ مرغی فروش اس پر آ گرا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ قاضی نے کہا کہ تم بھی اس مینار پر چڑھ کر مرغی فرش پر چھلانگ لگادو تاکہ وہ بھی مرجائے، اس پر بوڑھے باپ کے بیٹے نے کہا کہ اگر مرغی فروش دائیں بائیں ہو گیا تو میں زمین پر گر کر مر جاؤں گا جس پر قاضی نے کہا کہ میں اس کا ذمے دار نہیں میرا کام عدل کرنا ہے۔ تمہارا باپ آگے پیچھے کیوں نہیں ہوا۔ یہ سن کر بیٹے نے بھی اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔ نتیجہ، یہی کہ اگر آپ کے پاس اختیار، طاقت یا دولت ہے تو قاضی کو خرید سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ قاضی آپ کو بچانے کے ہنر سے خوب اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔
پاکستانی نظامِ عدل میں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر کسی کو حیرت ہو۔ یہ وہ پاکستان ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن اس کے وجود کے اول روز سے ہر ہر ادارہ شیطان کی پیروی میں لگا ہوا ہے اور خاص طور سے نظام عدل اتنا بگڑا ہوا ہے کہ اس کو اللہ ہی ٹھیک کرے تو کرے، انسانوں کے ہاتھوں سے ہونا اب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
اس واقعے کو منقول کرنے کے بعد شاید ہی کوئی بات ایسی ہو جو پاکستان اور پاکستان کے نظامِ عدل کی وضاحت کے لیے ضروری ہو۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسی کا عکس اس واقعے کے آئینے میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے آسمان پر کچھ فیصلے ہوا چاہتے ہیں۔ جب بات انسانوں کے ہاتھ سے نکل جائے تو اس کو سیدھا قدرت ہی کیا کرتی ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح بنی اسرائیل پر اللہ سب سے زیادہ مہربان رہا ہے اسی طرح پاکستانی مسلمانوں پر بھی اس نے اپنی نعمتوں کی بے پناہ بارشیں برسائیں ہیں لیکن جس طرح بنی اسرائیلی ناشکری پر ناشکری کا مظاہرہ کرتے رہے، اس سے کئی گنا بڑھ کر ہم کرتے چلے آ رہے ہیں لہٰذا بنی اسرائیل کی طرح اب ہمارا تباہ و برباد ہو جانا جیسے ٹھیر سا گیا ہے (خدا نخواستہ)۔ اللہ رحم فرمائے (آمین)۔