لبنان سے میزائل حملے

641

مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کے لیے فلسطینیوں نے ایک اہم اقدام اٹھایا یہ اسرائیل کے لیے بہت حیران کن تھا جب جنوبی لبنان سے مقبوضہ فلسطین پر راکٹ برسنے لگے جس سے کئی اسرائیلی آبادکار زخمی ہوئے اور املاک تباہ ہوئی۔ بقول اسرائیلی میڈیا ان میں سے نصف کو آئرن ڈوم کے ذریعے روک دیا گیا۔ عرب سیاسی تجزیہ کار ’’یاسین عزالدین‘‘ لبنان سے ہوتے ہوئے ان حملوںکو علامتی حملہ قرار دیتے ہیں کہ یہ دشمن کے لیے واضح پیغام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ اب غزہ کے علاوہ فلسطین مغربی کنارے اور یروشلم میں ایک سے زیادہ محاذوں پر دشمن کو مزاحمت کا سامنا ہے یعنی مزاحمتی محاذ کا دائرہ پھیل رہا ہے جو فلسطین کے باہر لبنان تک منتقل ہوگیا ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے اس لیے بھی بہت حیران کن ہے کہ اس وقت اس کی نظریں غزہ پر تھیں وہ جنوبی لبنان سے ہونے والے اس حملے پر حیران ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ 2006ء کی جنگ کے بعد سب سے بڑا دھماکا ہے۔ صہیونی امور کے ماہر ڈاکٹر عدنان ابوعامر کہتے ہیں کہ اسرائیل نے ہمیشہ اپنے انٹیلی جنس سسٹم پر فخر کیا ہے جو فلسطینیوں کی سانسیں گنتے ہیں۔ لیکن دن کے اجالے میں اس حملے میں انہیں اندازہ ہوا کہ ان کی ساری انٹیلی جنس بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
لبنان سے ہونے والے اس راکٹ حملے کی حوصلہ افزائی اور تعریف فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں اور سرکردہ فلسطینی قیادت نے بھی کی ہے، ان کے ترجمان نے کہا کہ دشمن کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ مسجد کے بغیر کوئی بھی مسلمان خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کے پیچھے کروڑوں اربوں مسلمان ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل پر ایسی باتوں کا اثر نہیں ہوتا اور نہ وہ باتوں سے ماننے والے ہیں۔ حالیہ تازہ ترین مسجد اقصیٰ پر حملے میں فلسطینی نمازیوں پر گرنیڈز اور گولیوں سے حملہ کیا، نمازیوں کو زبردستی باہر نکالا، بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، متعدد کو گرفتار بھی کیا۔ پچھلے ہفتے شدت پسند اسرائیلی وزیر نے سخت سیکورٹی میں مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تھا۔ مسلمان ممالک کے علاوہ امریکا نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔ اور مسجد اقصیٰ کے احاطے میں خطرناک اور اشتعال انگیز خلاف ورزیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ اس سال کے آغاز میں اسرائیل میں صہیونی انتہا پسند اقتدار میں آئے تو بیت المقدس شہر کے تمام علاقے اسرائیلی ریاست کے منظم دہشت گردی اور جرائم کا شکار ہونے لگے۔ القدس پر پابندیاں عائد کی گئیں اور وہاں رہنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا۔ ہر سال ہی القدس پر دھاوے مارے جاتے ہیں، ہزاروں یہودی قبلہ اول کی بے حرمتی کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ ایک طرف یہودی صہیونیوں کو بیت المقدس کی بے حرمتی کی مکمل چھوٹ دی جاتی ہے بلکہ سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ دوسری طرف مسلمان نمازیوں کی مسجد اقصیٰ آمد پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ تا کہ مسجد تک ان کی رسائی مشکل سے مشکل ہوسکے۔ حالیہ ایک نئی پابندی کے تحت اٹھارہ سے پچاس سال کے درمیان کی عمر کے فلسطینیوں پر مسجد میں داخلے اور نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بیت المقدس شہر کے چپے چپے پر اسرائیلی فوجوں اور پولیس کی چوکیاں اور ناکے لگے ہوئے ہیں۔ بیت المقدس کے شہریوں پر دبائو ڈالنے کے لیے کمر توڑ ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ املاک کی ضبطی کی مہم اس کے ساتھ ساتھ ہے۔ مسجد کو نشانہ بنانے کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ سارے عوامل مزاحمتی غیظ و غضب کو دعوت دے رہے ہیں، لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان حالات میں فلسطینیوں کے لیے مسلم اُمہ کی پشت پناہی لازم ہے۔ یہ اُن کے لیے اُمید کی کرن ہے۔ عالمی برادری ہمیشہ کی طرح مذمت کررہی ہے لیکن اب محض مذمت کافی نہیں ہے۔ اسرائیل پر پابندیاں لگانا لازم ہے۔ ورنہ دوسری طرف حماس نے جس ثابت قدمی کے ساتھ اسرائیل کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے حالیہ میزائل حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر فلسطینی قوتیں بھی متحد ہو رہی ہیں۔