عید الفطرقریب آتے ہی  کاریگروں کا سوٹ سلائی کی بکنگ سے انکار

631
عید الفطرقریب آتے ہی  کاریگروں نے نئے سوٹ سلائی کی بکنگ سے انکار کردیا

کراچی:عید الفطرقریب آتے ہی کراچی میں کپڑوں کی سلائی کے کاریگروں نے نئے سوٹ سلائی کی بکنگ سے انکار کردیا ہے جس کے بعدخواتین نے شوق اورمجبوری کے تحت ریڈی میڈ سوٹ کی خریداری کیلئے بوتیک کا رخ کرلیا ہے۔

دوسری جانب آن لائن خریداری کے رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کپڑوں کی سلائی کے کاریگروں کی جانب سے “کپڑوں کی  سلائی کی بکنگ بند”کا بورڈ لگانے کے بعد کراچی کے بڑے بازاروں اورشاپنگ سینٹرز کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں میں خواتین کے ملبوسات کی دکانیں یعنی بوتیک کھولنے کا رجحان اب منافع بخش کاروبار بن گیا ہے جبکہ بوتیک  کے کاروبار میں منافع کو دیکھتے ہوئے عام کھرانوں کے ساتھ ساتھ صاحب ثروت گھرانوں کی خواتین بھی اس میدان میں قدم رکھ چکی ہیں اور بعض علاقوں میں خواتین نے اپنے گھروں میں بھی بوتیک قائم کرلئے ہیں جہاں انہوں نے طرح طرح کے ملبوسات تیار کراکے فروخت کیلئے پیش کئے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی شوبز سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی اب بوتیک قائم کرکے ریڈی میڈ گارمنٹس کے کاروبار سے منسلک ہوگئی ہیں اور ان کا کاروبار شوبز سے وابستگی اور مقبولیت کے سبب چمک رہا ہے۔

خواتین نے پوش علاقوں میں چھوٹی فیکٹڑیاں قائم کرکے تیار کئے جانے والے ملبوسات ڈیفنس،کلفٹن، بہادر آباد،طارق روڈ،گلشن اقبال،حیدری سمیت دیگر مارکیٹوں اوربلند وبالا مالز میں قائم کردہ بوتیکس کو فراہم کرنا شروع کردیئے ہیں۔

بعض علاقوں میں ملبوسات پر 300سے500فیصد تک منافع  کمایا جارہا ہے جبکہ زیادہ تر بوتیکس  کے مالک یا مالکن گھریلو خواتین سے کم قیمت میں سوٹ سلوا کربھاری معاوضہ پر فروخت کررہے ہیں۔اوریہ تمام کاروبار ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر جاری ہے۔سب سے زیادہ منافع ڈیفنس،بہادرآباد،کلفٹن اورحیدری کے شاپنگ سینٹرز اور مالز کے بوتیکس میں کمایا جارہا ہے۔

شہر میں نامی گرامی شخصیات اورفیشن ڈیزائنرکے نام پر  تیار کردہ درمیانے درجے کے ملبوسات  بھاری قیمتوں میں فروخت کئے جارہے ہیں اور ایک سوٹ کی قیمت 10ہزار روپے سے50ہزار روپے سے بھی زائد ہے جبکہ گھریلو خواتین کے تیار کردہ ملبوسات بوتیکس کے مقابلے میں کوالٹی میں کہیں بہتر اورقیمت میں بھی نہایت کم ہیں۔

گھریلو خواتین کے تیارکردہ ملبوسات 2500ہزار روپے سے4000روپے کے درمیان ہیں۔خواتین کے ملبوسات کے کاروبار کو کم آمدنی والے طبقے میں گھریلو صنعت کا درجہ حاصل ہے، گھریلو خواتین اپنے تیار کئے گئے ملبوسات آن لائن بھی فروخت کرکے بھاری منافع حاصل کررہی ہیں اورگھریلو خواتین کیلئے آن لائن بزنس منافع بخش بن گیا ہے۔

دوسری جانب شہر قائد کی مارکیٹوں،شاپنگ سینٹرز میں اس وقت گرمی کی مناسبت  سے سفیداور ہلکے رنگوں کے مختلف اقسام کی واشنگ ویئر اورکاٹن کے ساے اورڈیزائن والے کرتا شلوار اورشلوارقم یض فروخت ہورہے ہیں۔

بیشتر دکانداروں کا کہنا ہے کہ نوجوان کرتا شلوار اورزائد عمر کے مرد حضرات شلوار قمیض خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔واشنگ ویئر اورکاٹن کی مختلف اقسام کے تیار شدہ شلوار،قمیض اور کرتا شلوار  2000روپے سے3000روپے میں دستیاب ہیں۔

شہر کے وسط  میں میٹرول پول ہوٹل کے سامنے عبداللہ گارمنٹس  کے نام سے قائم شاپ کے مالک فرحان یاسین کا کہنا تھا کہ انکے  مقبول ترین  برانڈجونی شرٹس کی قیمت 900روپے سے 1100کے رمیان ہے جبکہ اگر کاریگر کے پاس کپڑا لے جاکر یہ شرٹ سلوائی جائے 800روپے تو  شرٹ کی  سلائی ہے لیکن ہم نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور لوگوں کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے عید کے موقع پر شرٹ کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے بلکہ اپنامنافع کم کرکے اپنے کسٹمرز کو سہولت دے رہے ہیں۔

بیشتر دکانداروں کا کہنا تھا کہ  دکاندار مختلف برانڈ کے شلوار قمیض اورکرتا شلوار بڑے بیوپاریوں سے خریدتے ہیں یا بغیر سلے  واشنگ ویئر اورکاٹن کی مختلف اقسام کراچی،لاہور اور فیصل آباد کی لاٹ  ماہ رمضان سے 3ماہ قبل خریدلی جاتی ہے،ان بغیر سلے کپڑوں کی شہر کے مختلف علاقوں  میں واقع کارخانوں اورگھروں پر خواتین سے سلائی کرائی جاتی ہے،ایک سوٹ پر60فیصد اخراجات اور40فیصد منافع کے اصول پر کاروبار ہوتا ہے،طلب کے مطابق سوٹ کی سلائی کا کام 25رمضان تک جاری رہتا ہے۔

مہنگائی اورمعاشی مسائل نے متوسط اورغریب طبقے  ککی قوت خرید کو بری طرح سے متاثر کیا ہے،چندسال قبل تک مناسب معاشی  حالات کی وجہ سے متوسط طبقے کے مرد اورنوجوان2سے3تیار شدہ کرتا اورشلوار اورشلوار قمیض خریدتے تھے لیکن قوت خرید متاثر ہونے سے ایک شخص بمشکلایک ہی جوڑا خریدرہا ہے جس کی خریداری کے دوران بھی قیمت پر بارگیننگ کی جاتی ہے۔

عبداللہ ہارون روڈ پر واقع  وکٹوریہ مارکیٹ میں ایک دکاندار شعیب کا کہنا تھا کہ نوجوان ان کے پاس شرٹ اور ٹرازر،پینٹ خریدنے کیلئے آتے ہیں اور ہم ہرتہوار پرنوجوان نسل کے پسندیدہ اور اعلی سے اعلی  شرٹس اورٹرازر رکھتے ہیں  لیکن مہنگائی نے مجموعی طور پر سب کے کاروبار کو ہی متاثر کیا ہے اور جونوجوان 3سے5شرٹس اور 2سے3ٹرازر خریدتے تھے انہوں نے ان کی تعداد کم کردی ہے۔

مہنگائی کی وجہ سے منافع کی شرح میں بھی کمی آئی ہے  اور تیارملبوسات 15سے20فیصد شرح منافع پر فروخت کئے جارہے ہیں کیونکہ گاہک ہمارے لئے کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے۔شعیب نے بتایا کہ انکی ابھی شادی ہوئی ہے اور یہ ہماری پہلی عید ہے،لیکن جب میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اورقوت خرید میں کمی کودیکھتا ہوں اور لوگوں کے اترے ہوئے چہرے دیکھتا ہوں تا مجھے اپنی خوشیاں  ماند دکھائی دیتی ہیں۔

ایک اور دکاندار نے بتایا کہ کرتا شلوار اور قمیض شلوار کا ایک  بغیرسلا ہوا جوڑا 1500روپے سے2500روپے تک ہے اور اسے سلوانے کیلئے درزی کی سلائی 1200روپے سے1500روپے تک ہے اس طرح ایک جوڑاسلوانے کیلئے 2700سے3500 روپے کا پڑتا ہے،اب متوسط طبقہ اتنا مہنگا شلوار قمیض یا کرتا  شلوار مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی میں کس طرح خرید پائے گا۔

دوسری جانب ریڈی میڈ گارمنٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ صدر کوآپریٹو مارکیٹ ہے جبکہ ریڈی میڈ مردانہ سوٹ صدر،طارق روڈ،کلفٹن،بولٹن ماررکیٹ،ڈیفنس،حیدری،لیاقت آباد،کریم آباد،کورنگی،ملیر،لانڈھی،شاہ فیصل،لسبیلہ،،پاپوش ناظم آباد،نارتھ کراچی،اورنگی ٹان،گلستان جوہر،گلشن اقبال،نیوکراچی سندھ ہوٹل اوردیگر علاقوں کی مارکیٹوں اور بازاروں میں فروخت ہورہے ہیں۔