قرض سے اشرافیہ کی عیاشی

473

انتخابات کب ہوں گے؟ ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ اگر نہیں ہوں گے تو پھر کیا ہوگا؟ سوالات اہم ہیں جس کے گرد ساری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان گھوم رہے ہیں، ساتھ ہی عوام کو بھی گھما رہے ہیں۔ حالاں کہ عوام کو گھمانے کے لیے مہنگائی ہی کافی ہے، سستے آٹے کے لیے لمبی قطاریں کافی بھگدڑ اور جانوں کے ضیاع کے بعد نظر آرہی ہیں، کئی کئی کلو میٹر طویل خواتین اور مردوں کی یہ قطاریں حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں عوام پریشان ہیں جس کی شرح 46 فی صد سے بڑھ چکی ہے، مہنگائی کے بڑھتے دبائو سے اشیا کی قیمتیں ہفتہ وار 50 فی صد سے بڑھ رہی ہیں، جب کہ آمدنی سکڑ رہی ہے، کیوں کہ روپے کی قیمت کم ہورہی ہے، حکومت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے دبائو میں آکر بجلی، گیس اور قدرتی ایندھن کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرچکی ہے اور مزید کرنے کا ارادہ ہے، لیکن حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں۔ مزید اخراجات پورے کرنے کے لیے منی بجٹ متعارف کروادیا گیا ہے جس میں عوام پر ایک ارب ستر کروڑ کے ٹیکس مزید لگادیے ہیں۔ یہ ٹیکس پٹرول، گیس اور ضرورت کی دوسری چیزوں پر لگایا گیا ہے جس سے عوام کمر توڑ مہنگائی کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کیوں چاہتا ہے کہ بنیادی ضرورت کی اشیا پر ٹیکس لگایا جائے اور پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ عوام کے لیے مہنگی ہوں۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی معاملات میں اس قدر اثر رسوخ رکھتا ہے تو وہ حکومت کو اپنے شاہانہ خرچے کم کروانے کے لیے زور کیوں نہیں ڈالتا۔ نظر یہ آتا ہے کہ وہ عوام کو تو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا رہا ہے لیکن ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ سامنے کی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے دبائو میں آج تک جو اقدامات اُٹھائے ہیں ان سے عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا ہے۔ یہ سوال کرنے میں عوام حق بجانب ہیں کہ کیا عوام کو مہنگائی سے کبھی کچھ نجات مل سکے گی یا نہیں؟ اگر صاف صاف بات کی جائے تو مہنگائی سے نجات اُس صورت میں ممکن ہے جب سادگی کا اصول اپنایا جائے، اس کے لیے سب سے پہلے حکومت کو خود اس پر عمل کرنا پڑے گا۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ کسی طرح اپنے اخراجات کم کرنے پر آمادہ نہیں، ان گئے گزرے حالات میں بھی وزیراعظم کی طرف سات مزید معاون خصوصی کا تقرر کیا گیا ہے جس کے بعد کابینہ کی کل تعداد 86 ارکان تک پہنچ گئی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی بحران کے دوران یہ مزید تقرریاں حیران کن ہیں تنخواہوں کے علاوہ سرکاری رہائش، سرکاری گاڑی، پٹرول، علاج، یوٹیلیٹی بلز اور دیگر الائونس کی مد میں ایک بھاری بوجھ ملکی خزانے پر ڈال دیا گیا۔ حالاں کہ کابینہ کی تعداد پہلے ہی دُنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت کابینہ کی کل تعداد 86 ہے، وزیروں، مشیروں کی تعداد الگ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تقرریاں جو کی گئی ہیں ان کے لیے کوئی شعبے نہیں بنائے گئے۔ یعنی انہیں کس شعبے میں کام کرنا ہے اس کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ شاید شعبے کے نام سوچنے میں دشواری ہورہی ہو گی۔ سوچیں 86 کابینہ کے افراد 86 شعبوں میں تعینات ہیں اور کارکردگی کا حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت گزشتہ 11 ماہ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ سوائے آئی ایم ایف کی ہدایت کے تحت ہر شے کی قیمتوں کے بڑھانے کے حکومت کیا کام کررہی ہے۔ حقیقت میں اس سے کچھ سنبھل نہیں پارہا۔ حکومت کے سارے رہنما عمران کے خلاف بیانات دینے پر توجہ رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وزیرخزانہ روز عوام کے سامنے کچھ اعداد وشمار بیان کرتے ہیں، ساتھ جلد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خوشخبری سناتے ہیں۔ مختلف ملکوں سے قرضوں کی نوید سناتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کو حکومت اور اشرافیہ کی سہولت کے لیے لیا جارہا ہے تو لیا ہی کیوں جائے؟ حکومت اشرافیہ (اسٹیبلشمنٹ) اپنے شاہانہ خرچوں کو ختم کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے۔ نہ ہی کوئی سیاسی جماعت اس پر بات کرتی ہے۔ سوائے ایک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے جس نے اپنے منشور میں اشرافیہ اور حکومت کے شاہانہ اخراجات کو ختم کرنے کی صاف صاف بات کی ہے۔ اور یہی راستہ ہے جس کے ذریعے ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چکر سے نجات دلائی جاسکتی ہے اور عوام کی کمر سے مہنگائی کا بھاری بوجھ اُتارا جاسکتا ہے۔