انصاف کے لیے قیامت کا انتظار کرو

418

اکثر قوموں کی تاریخ زیب داستان کے مختلف عناصر سے مزین ہوتی ہے۔ مگر اس کی کہاوتیں اور اقوال زریں ناقابل تردید سچ ہوتے ہیں۔ اس آفاقی سچ سے انکار ممکن ہی نہیں کہ جو شخص مشتعل مزاج ہو، جلد باز ہو، دروغ گوئی اور غلط آہنگی اس کی فطرت ہو، وہ وقتی طور پر تو شادمانی اور کامرانی کے گھوڑے پر سوار ہو جاتا ہے مگر زمین بوس ہونا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ بد نصیبی یہ ہے کہ تمام خرابیاں، خامیاں اور کوتاہیاں ہمارے معاشرے میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز کا کوئی بھی ادارہ اس پر توجہ نہیں دیتا۔ حالانکہ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ یہ خرابیاں عام آدمی میں پائی جائیں تو انفرادی طور پر تو نقصان دہ ہیں مگر اجتماعی طور پر زیادہ نقصان دہ ثابت نہیں ہوتیں۔ اگر یہی خامیاں کسی سیاسی، سماجی شخصیت میں موجود ہوں، تو اس کے بد اثرات سے ملکی اور قومی سطح پر انتہائی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
معزول وزیر اعظم عمران خان سماجی رہنماء تھے۔ اس کی خدمات قابل تقلید اور قابل تحسین تھیں۔ کچھ ابن الوقت لوگوں نے ان کی سماجی خدمات کے طفیل ملنے والی مقبولیت سے استفادہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سازش کی۔ اور خان صاحب کو سیاسی میدان میں لے آئے تا کہ ان کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوان اقتدار میں داخل ہو سکیں۔ ابتداء میں تو کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اہل وطن ان کی سماجی خدمات کے تو معترف تھے مگر اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ سماجی خدمات اور سیاسی خدمات دو الگ الگ معاملا ت ہیں۔ اور جب دو مختلف چیزوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی اہمیت اور انفرادیت کھو دیتی ہیں۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے قوم کی خوشحالی کے بجائے اپنی اور اپنے عزیزو اقارب کو خوشحال بنانے کے لیے ملکی اور قومی وسائل کو ایسے اندھا دھند استعمال کیا کہ ملک اور قوم افلاس کی دھند میں دھندلا گئے۔ اس تناظر میں مقتدر قوتوں نے عمران خان کو آزمانے کا تہیہ کیا۔ مگر ان کے تہیے نے قوم کا تختہ کر دیا۔ ایک ایسا تختہ کہ جس سے تابوت ہی بنایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے قوم کو اس تابوت میں اُتارنے کا آغاز کیا تو اس کے اختتام کے لیے سیاسی جماعتوں کو عدم اعتماد لانے کے لیے متحرک کیا گیا۔ امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے بہت سمجھایا کہ عدم اعتماد کی تحریک عمران خان کے لیے حیات نو ثابت ہو گی کہ من حیث القوم ہم مظلوموں کی حمایت کرنے کے عادی ہیں۔ ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک عدم استحکام کی تحریک بن جائے گی۔ اور عمران خان کی واپسی ٹارزن کی واپسی ثابت ہو گی۔ مگر اقتدار کی بوتل دکھائی دی تو ایسا نشہ چڑھا کہ ہر تریاق بے اثر رہا۔ اور اب عمران خان کی واپسی کے خوف نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
وزارت عظمیٰ کی منتظر مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان کو وزرت عظمیٰ پر براجمان کرنے والوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑے ہیں۔ انہیں وزیر اعظم کی مسند پر بٹھانے والی مقتدر قوتیں اپنے تجزیے کی ناکامی پر ماتم کناں ہیں اور قوم اقتدار کی تکون کا ماتم کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسا تجزیہ ہے کہ جس سے انکار کی گنجائش ممکن ہی نہیں۔ مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ تیرہ جماعتوں کا اقتدار بھی ایسا تجربہ ثابت ہوا ہے کہ جس نے قوم کو منہ کے بل گرا دیا ہے اور قوم کو تیرہ تین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ تیرہ جماعتیں اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کے بجائے مہنگائی، بے روز گاری، اور معیشت کی تباہی کا ذمہ دار عمران خا ن کو ٹھیرا رہی ہیں۔ حتیٰ کہ آئی ایم ایف کی ٹال مٹول کو بھی عمران خان کی بارودی سرنگیں قرار دے رہی ہیں۔
یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ آنے والی ہر حکومت اپنی نا اہلیت کو ذمے دار پیش رو حکومت کو ذمے دار قرار دیتی ہے اور احساس ندامت بھی نہیں کرتی۔ حالانکہ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پیش رو حکومت ملک و قوم کی خدمت کرتی تو ایوان اقتدار سے باہر نہ ہوتی۔ عمران خان بھی مذکورہ وظیفے کا ورد کرتے رہے۔ نتیجتاً ایوان اقتدار سے نکال دیے گئے۔ ہمارے ہاں مروجہ سیاست میں ایسے وظائف الٹے ہی پڑ جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی ان ہی کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جا سکتی البتہ الیکشن کا نقارہ ضرور بج سکتا ہے اور اس قدر زور سے بج رہا ہے کہ حکومت کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ مگر انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر الیکشن نہ کرائے گئے تو کوئی قیامت آئے گی نہ آسمان ٹوٹے گا۔ عدلیہ عمران خان کی محبت میں جنون کی تمام تر حدیں عبور کر چکی ہے مگر یہ نہیں جانتی کہ جنونی سب سے زیادہ اپنے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ بلاوے کے باوجود عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوتے اور جسٹس صاحبان دست بستہ کھڑے ان کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر جب سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چند منٹ لیٹ ہو گئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیے گئے حالانکہ ان کی فائل انتظار میں رکھی جا سکتی تھی۔ مگر جہاں بات حسن کرشمہ سازکی ہو وہاں ایسی چمت کاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں کسی بزرگ نے ملک کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کا ایک شعر تھوڑی تحریف کے ساتھ سنایا:
کیوں بخش دیا اس سے گناہ گار کو مولا
منصف تو کسی سے بھی رعایت نہیں کرتے
شعر سن کر کسی نے کہا تھا کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری عدالتیں قانونی نکات سے زیادہ احکامات خداوندی کی قائل ہیں۔ خدا کا فرمان ہے۔
’’اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے‘‘۔ سو، قیامت کا انتظار کرو۔ کہ قبل ازیں عدالتیں میزان عدل کے پلڑوں کو برابر نہیں کر سکتیں۔