عقلِ عام اور مذہب (آخری حصہ)

573

سورۃ القارعہ میں اعمال کے ہلکے اور بھاری ہونے کا ذکر ہے، البتہ کفار جن کا جہنمی ہونا یقینی ہے، اُن کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے رسولِ مکرّم) آپ کہیے: کیا ہم تمہیں بتادیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون لوگ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوششیں دنیا کی زندگی میں اکارت گئیں اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیتوں اور (قیامت کے دن اُس سے ملاقات کا انکار کیا، پس اُن کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن اُن کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے‘‘۔ (الکہف: 103-105) یعنی اُن کی نَجات کا کوئی امکان ہی نہیں ہے تو اُن کے لیے میزانِ عدل قائم کرنا سعیِ لاحاصل ہے۔ نیز وزنِ اعمال اور اعمال کے ہلکے اور بھاری ہونے کا احادیثِ مبارکہ میں بھی ذکر ہے اور جمہورِ امت کا اس کے حق ہونے پر اجماع ہے، البتہ اس کی کیفیت کیا ہوگی، اس کا تعین اس دنیا میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ اس کے برعکس معتزلہ کا فرقہ گزرا ہے، جو دینی امور میں عقل کو معیار ومدار مانتے تھے،لہٰذا انہوں نے نظریہ قائم کیا: اعمال عوارِض ہیں، یہ انسان کے وجود کے ساتھ قائم ہیں، ان کا خارج میں کوئی مستقل بالذات وجود نہیں ہوتا، لہٰذا ان کے تولے جانے کی بات محض استعارے کے طور پر آئی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر جنتیوں اور جہنمیوں کا فیصلہ فرمادے گا تو کیا ہم ایسی عقلِ عیار کی تسکین کے لیے وحیِ ربانی کو ردّ کردیں گے۔
رسول اللہؐ نے جہاں مناسب محسوس فرمایا، وہاں عقلی دلائل سے بھی لوگوں کو شریعت کی حقانیت کا قائل کیا ہے اور اسے قرائن کی شہادت کے طور پر لیا ہے، ہم صحیح البخاری: 6770-71 اور صحیح مسلم: 1459 کی اِن روایات کو یکجا کر کے بیان کر رہے ہیں:
’’سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہؐ (گھر میں) داخل ہوئے، آپ بہت خوش تھے اور خوشی آپ کے چہرۂ انور سے جھلک رہی تھی، آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! تمہیں معلوم ہے کہ مجزِّز مُدلجی آیا اور اس نے دیکھا: (دو اشخاص یعنی) زید بن حارثہ اور اسامہ بن زیدؓ ایک چادر اوڑھ کرلیٹے ہوئے ہیں، اُن کے بدن کا بالائی حصہ ڈھکا ہوا تھا اور پائوں نظر آرہے تھے، اس نے کہا: یہ پائوں ایک دوسرے کا جزو ہیں‘‘۔ یعنی چادر لپیٹ کر لیٹے ہوئے یہ اشخاص مجھے باپ بیٹا لگتے ہیں۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: سیدنا زید بن حارثہ کا رنگ گورا تھا اور اُن کے صاحبزادے سیدنا اسامہ بن زید کا رنگ کالا تھا، رنگت کے اس تضاد کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بعض لوگوں نے اُن کے نسب کی صحت پر طَعن کیا۔ پس آپؐ کو خوشی ہوئی کہ اس قیافہ شناس کی ماہرانہ رائے نے اس طَعن کو دور کردیا۔ اسامہ بن زید تو ثابت النسب تھے اور کسی کو اس میں شک نہ تھا، لیکن اہلِ عرب چونکہ قیافہ شناسی پر یقین رکھتے تھے، اس لیے اُن پر حجت قائم ہوگئی اور اس سے آپؐ کو مسرّت ہوئی، کیونکہ اسامہ بن زید کا لقب ’’حِبُّ رَسولِ اللّٰہ‘‘ یعنی محبوبِ رسول تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں امام شافعی اور بعض علماء نے ثبوتِ نسب کے لیے قیافہ شناسی کو حجت قرار دیا ہے، اُن کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ استدلال آپؐ کے نزدیک حق نہ ہوتا تو آپ اس پر مسرّت کا اظہار نہ فرماتے، جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ طَعن کرنے والوں کے نزدیک قیافہ شناسی حجت مانی جاتی تھی، اس لیے مجزِّز مُدلجی کا قول اُن کے خلاف حجت ہوگیا، لیکن قیافہ شناسی یا الہامات یا مکاشفات سب ظنی امور ہیں، ان کو معاون شہادت کا درجہ تو دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ قطعی ناقابلِ تردید شہادت قرار نہیں دی جاسکتی۔ (مفتاح السعادۃ) ہمارے نزدیک ڈی این اے کی حیثیت بھی یہی ہے اور اس پر ہم ماضی میں امریکا اور جرمنی کی عدالتوں کے شواہد پیش کرچکے ہیں۔
نیز یہ کہ باپ بیٹے میں محض رنگت کے اختلاف کے سبب نسب پر طَعن کرنا درست نہیں ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’ایک شخص رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹا پیدا ہوا ہے (غالباً وہ خود سفید رنگ کا تھا، اس بنا پر اُسے اپنے بیٹے کے نسب کے بارے میں شبہ ہوا)، آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟، اُس نے جواب دیا: جی ہاں!، آپؐ نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں، اُس نے عرض کیا: سرخ، آپؐ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟، اُس نے عرض کیا: جی ہاں !، آپؐ نے فرمایا: تو سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ کہاں سے آگیا؟، اُس نے عرض کیا: شاید (اُس کے نسبی آباء میں سے) کسی کی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو، آپؐ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی (تمہارے آباء واجداد کی) کسی رگ نے کھینچ لیا ہو‘‘، (بخاری) اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے:
سیدنا رَباح روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا، اُنہوں نے جواب دیا: میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا یا بیٹی، آپؐ نے پوچھا: وہ بچہ صورت میں کس سے مشابہ ہوگا؟، اُس نے عرض کیا: یارسول اللہ! یقینا اپنے باپ یا ماں میں سے کسی ایک کے مشابہ ہوگا، آپؐ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ) جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کے اورآدمؑ کے درمیان اُس کے سلسلۂ نسب کو حاضر فرما دیتا ہے (اور وہ اُن میں سے کسی سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے)، پھر آپؐ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ’’وہ جس صورت میں چاہتا ہے، تمہاری تشکیل فرما دیتا ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) چنانچہ اس طرح کی نظیریں ہمیں اپنے گرد وپیش میں مل جاتی ہیں کہ والدین اور اولاد کی رنگتوں اور نقوش میں فرق ہوتا ہے، یہی اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت اور مصوری ہے اور اس کا تکوینی نظام ہے۔
رسول اللہؐ کے اجدادِ عالی نسب بھی ایسی ہی شاہکار ذہانتوں کے حامل تھے، ہم ذیل میں امام محمد بن یوسف صالحی کی روایت کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں:
رسول اللہؐ کی بیسویں پشت پر جناب نزار آتے ہیں، انہوں نے اپنا مال اولاد میں تقسیم کردیا اور وصیت کی کہ تم میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو شاہِ نجران اَفْعٰی سے فیصلہ کرانا۔ وہ اَفْعٰی کے پاس جارہے تھے کہ ایک شخص ملا جس کا اونٹ گم ہوگیا تھا، اس نے ان سے پوچھا: آپ لوگوں نے میرا اونٹ دیکھا ہے۔ ایک بھائی نے پوچھا: کیا تمہارا اونٹ کانا ہے، دوسرے نے پوچھا: کیا تمہارا اونٹ لنگڑا ہے، تیسرے نے پوچھا: کیا وہ دم کٹا ہے، اس نے تینوں باتوں کا جواب اثبات میں دیا اور کہا: بتائو میرا اونٹ کہاں ہے؟، انہوں نے کہا: ہم نے نہیں دیکھا، اس نے کہا: آپ لوگوں نے دیکھا ہے، کیونکہ آپ ساری علامتیں درست بتارہے ہیں۔ پس وہ بھی شکایت کرنے کے لیے ان کے ساتھ اَفْعٰی جُرْھَمیکے پاس چلا گیا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اَفْعٰی نے ان سے پوچھا: اگر آپ لوگوں نے نہیں دیکھا تو یہ ساری علامتیں کیسے درست بتادیں: ایک نے کہا: ہم نے دیکھا کہ ایک طرف کی گھاس چری ہوئی ہے اور دوسری طرف بالکل منہ نہیں لگایا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ اونٹ کانا ہے، دوسرے نے کہا: ہم نے دیکھا کہ مینگنیاں اکٹھی پڑی ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ دُم کٹا ہے (کیونکہ دم کی حرکت سے مینگنیاں منتشر ہوجاتی ہیں)، تیسرے نے کہا: ہم نے دیکھا کہ ایک پائوں کے نشانات زمین پر ثبت ہیں اور دوسرا گھسٹتا ہوا نظر آیا، تو ہم نے سمجھا کہ یہ اونٹ لنگڑا ہے۔ بادشاہ اُن کی ذہانت کو دیکھ کر حیران ہوگیا اور کہا کہ آپ لوگ خود اپنا فیصلہ کریں۔ بادشاہ نے اُن کی ضیافت پر ایک خادم کو مامور کردیا، شراب، گوشت اور روٹی سے اُن کی تواضع کی۔ ان میں سے ایک نے کہا: یہ شراب اُس انگور سے کشید کی گئی ہے جو قبر پر اگا ہوا ہے، دوسرے نے کہا: یہ گوشت اس بکری کا ہے جسے کتیا کا دودھ پلایا گیا ہے، تیسرے نے کہا: بادشاہ صحیح النسب نہیں ہے، جب بادشاہ تک یہ تبصرہ پہنچا تو اُس نے ان سے ان آراء کا سبب معلوم کیا۔ انہوں نے بتایا: ہمارے قیافے کی بنیاد یہ ہے کہ عمدہ شراب سرور عطا کرتی ہے اور غم کو زائل کرتی ہے، لیکن اس نے یہ اثر نہیں دکھایا، لگتا ہے کہ یہ انگور قبر پر اگا ہے اور قبرستان مقامِ سرور نہیں ہے۔ اسی طرح حلال جانور کی چربی گوشت کے اوپر ہوتی ہے، جبکہ کتے کی چربی گوشت کے نیچے ہوتی ہے اور شوربے میں چربی نیچے تھی، اس سے ہم نے قیاس کیا کہ اس بکری نے کتیا کا دودھ پیا ہے، ماضی میں جب والد کے ہمراہ ہم نے بادشاہ کی ضیافت کھائی تو بادشاہ اکرام کے طور پر مہمانوں کے ساتھ بیٹھا تھا، لیکن موجودہ بادشاہ نہیں بیٹھا، اس سے معلوم ہوا کہ اس کے نسب میں خرابی ہے اور بعد میں اس کی تصدیق ہوگئی۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اگر حاملِ مذہب کا کوئی فعل غلط ہو تو اُسے اُس کی ذاتی غلطی سمجھنا چاہیے، اس کی ذمے داری مذہب یا سارے اہلِ مذہب پر ڈالنا قرینِ انصاف نہیں ہے، نیز مذہبی تعلیمات اور عقلِ سلیم میں کبھی کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ دینی امور میں سے کوئی امر کسی کے لیے ماورائے عقل تو ہوسکتا ہے کہ کسی کی عقل اپنی نارسائی کے سبب اُس کی حکمت کو نہ سمجھ سکے، لیکن ضدِ عقل نہیں ہوتا اور معجزہ تو کہتے ہی ’’خارِقِ عادت‘‘ کو ہیں، یعنی مدعی نبوت کے ہاتھ پر یا اُس کی ذات سے کسی ایسے فعل کا صادر ہونا جو عالَمِ اسباب کے تکوینی نظام یعنی سبب اور مُسَبَّب، علّت اور معلول اور Cause & Effect کے تانے بانے کو توڑ دے۔ پس ہمارے ہاں کسی غیر معمولی کامیابی یا عقل کو حیرت زدہ کردینے والے واقعے کو معجزے سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ درست نہیں ہے، معجزہ ایک دینی اصطلاح ہے، نیز ہمارے ہاں کہا جاتا ہے: ’’معصوم لوگ دہشت گردوں کا نشانہ بنے‘‘، عصمت بھی شرعی اصطلاح ہے اور خاصّۂ نبوت ہے، بچے ہوں یا بڑے، اُن کے لیے بے قصور کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔