کراچی کے بلدیاتی ادارے مکمل کیے جائیں

291

ڈیڑھ ماہ سے زائد مدت گزر چکی ہے ابھی تک کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے مکمل نتائج دینے میں الیکشن کمیشن کامیاب نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن کو بلدیاتی اداروں کی تکمیل کے لیے 11 ملتوی شدہ نشستوں پر انتخاب کی تاریخ بھی دینا ہے، لیکن ابھی تک اس کا بھی شیڈول نہیں دیا گیا۔ یہ بات واضح ہے کہ صوبائی حکومت میں شامل پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات سے فرار چاہ رہے تھے، ان کی کوششیں آخر وقت تک جاری رہیں لیکن حکومت مجبور ہوگئی۔ صوبائی حکومت نے 18 ویں ترمیم کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شہری اداروں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے، جس کی وجہ سے شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ صوبائی حکمران مالی مفادات حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے منصوبے اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سہولت کاری کا کردار ادا کررہا ہے۔ آخر اس بات کا کیا جواز ہے کہ ابھی تک نتائج پورے نہیں ہوئے۔ یہ عمل اس بات کی چغلی کھا رہا ہے کہ آر او اور ڈی آر او کے ذریعے نتائج بدلنے اور دھاندلی کے الزامات میں وزن ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت بلدیاتی اداروں کو مکمل کرنے کے لیے عدالت عالیہ سندھ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ شہر کراچی کے قائد اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اہل کراچی کا حق دلانے کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز کی تعمیر نو کے پہلے نمائندہ بلدیاتی ادارے کا قیام اولین ضرورت ہے، لیکن الیکشن کمیشن کے طرزِعمل سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ آزادانہ کردار ادا کرنے کے بجائے سندھ حکومت کے مفادات کا محافظ ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں الیکشن کمیشن کا غیر جانبدار ہونا جمہوری نظام کے تحفظ کی اولین ضرورت ہے۔